رَّسُولُ اللّٰہِ)کا اقرار کرلیا ہے اور اب میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائی مزید برداشت نہیں کر سکتا، لہٰذا میں ہجرت کرکے مدینہ طیبہ جارہا ہوں۔ میری دلی خواہش ہے کہ آپ بھی میرے ساتھ چلیں۔
پہلے تو چچا کو یقین نہ آیا، اورجب اسے اپنے بھتیجے کے اسلام کا یقین ہوگیاتو وہ شدید غصے میں آگیا اور کہنے لگا:’’میں نے تمھیں پالا پوسا، تمھارے ساتھ محبت کی اور تمھیں دنیاکی ہر نعمت مہیا کی۔ میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ فوراً اسلام سے باز آجاؤ۔‘‘
’’میں تو کبھی اسلام چھوڑنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا ۔‘‘
عبدالعزیٰ نے جواب دیا۔
پھر تمھیں ہر نعمت، ہر چیز، جس کے تم مالک ہو چھوڑنا ہوگی۔ میں تم سے تمام آسائشیں اور سہولتیں واپس لے لوں گا۔ سنو! ہر چیز حتی کہ تمھارے تن کے کپڑے بھی تم سے اتروالیے جائیں گے۔ عبدالعزیٰ گویا ہوا:چچا جان! جیسے آپ کی مرضی۔میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں کسی چیز کو اہمیت اور فوقیت نہیں دے سکتا۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بدلے میں ہر نعمت کو ٹھکراتا ہوں۔ چاہے آپ مجھ سے ہر چیز واپس لے لیں۔
چچا غصے سے آگ بگولہ ہوگیا۔اس نے عبدالعزیٰ کے کپڑوں کو پھاڑ ڈالا اور انھیں ٹکڑے ٹکرے کرکے پھینک دیا۔ عبدالعزیٰ تقریباً ننگا ہوچکاتھا۔ اسے زمین پر دو ٹاٹ کے ٹکڑے نظر آئے۔ اس نے جلدی سے ایک ٹکڑے سے اپنا ستر چھپالیا اور دوسرا اپنے کندھے پر ڈال لیا۔
قارئین کرام! آج کل کے مسلمان تو رخصتوں کے دلدادہ ہیں۔ داستانِ عزیمت پڑھنی ہو تو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی حیات طیبہ کا مطالعہ کریں کہ انھوں نے کس طرح اسلام کی خاطر قربانیاں دیں۔ ایک روایت میں ذکر ہے کہ وہ اسی حالت میں اپنی والدہ کے پاس گیا۔ اس سے مدد مانگی تو اس نے ایک ٹاٹ بیٹے کی طرف پھینکا جس سے عبدالعزیٰ نے اپنا ستر اور کندھے چھپالیے۔ والدہ نے بھی صاف جواب دے دیا کہ میں اس سے زیادہ تمھارے لیے کچھ نہیں کر سکتی۔
عبدالعزیٰ کا رخ اب مدینۃ الرسول کی طرف تھا جہاں کائنات کی سب سے زیادہ شفقت اور محبت کرنے والی اعلیٰ ترین ہستی موجود تھی جس کے اعلیٰ اخلاق کی تاریخِ انسانیت میں کوئی مثال نہیں ہے۔
|