اور علامہ راغب فرماتے ہیں کہ "غیبت یہ ہے کہ ایک شخص بلا ضرورت دوسرے شخص کا وہ عیب بیان کرے جو اس میں موجود ہو۔" (المفردات: ص 367)
اسی چیز کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ایک حدیث میں یوں بیان فرمایا: کہ "کیا تم جانتے ہو کہ غیبت کیا ہے؟" صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ آپ نے ارشاد فرمایا: "غیبت یہ ہے کہ تم اپنے بھائی کے اس عیب کا ذکر کرو جس کا ذکر اسے ناپسند ہو" کہا گیا: "یہ فرمائیے کہ اگر میرے بھائی میں وہ عیب ہو جس کا میں ذکر کروں؟" فرمایا: "اگر تم وہ عیب بیان کرو جو اس میں ہے تبھی تو تم نے اس کی غیبت کی، اور اگر تم نے وہ عیب بیان کیا جو اس میں نہیں ہے تو پھر تم نے اس پر بہتان لگایا۔"
(مسلم، رقم: 6469، ابوداؤد، رقم: 4874)
(غیبت کی تفصیل و تشریح کے لیے ملاحظہ ہو ہماری کتاب "غیبت ۔۔۔ ایک گھناؤنا گناہ۔")
غیبت کے علاوہ اسلام نے تجسس، تحسس اور تنافس اور حسد و بغض کو بھی حرام قرار دیا۔ چنانچہ ارشاد نبوی ہے:
(اياكم والظن فان الظن اكذب الحديث، ولا تجسسوا ولا تحسسوا، ولا تنافسوا، ولا تحاسدوا، ولا تباغضوا ولا تدابروا، وكونوا عباداللّٰه اخواناً)
(مسلم: 1563، کتاب البر)
"ایک دوسرے کی جاسوسی نہ کرو اور نہ حسوسی کرو (جاسوسی دوسرے کے لیے ٹوہ لگانا اور حسوسی خود اپنے ٹوہ لگانا) اور نہ خریدوفروخت میں بولی بڑھا کر ایک دوسرے کو دھوکہ دو، نہ ایک دوسرے پر حسد کرو، اور نہ ایک دوسرے سے بغض رکھو اور نہ ایک دوسرے سے پیٹھ پھیرو یعنی اعراض اور بے رخی نہ کرو، اور اے اللہ کے بندو! تم بھائی بھائی بن جاؤ۔"
اور لوگوں کے عیوب تلاش کرتے رہنا تاکہ ان کی تشہیر کر کے لوگوں کی عزت و ناموس کو بٹہ لگایا جائے۔ چنانچہ قرآن حکیم میں ارشاد خداوندی ہے:
|