اعلیٰ اور بلند ترین مقام دیا اور پہلی بار عورت کو وراثت میں حصہ دیا۔ عورت کو اسلام نے جو بلند مقام عطا فرمایا ہے وہ تو ہر صاحب علم و دانش جانتا ہے لیکن کو مرد کے ساتھ مساوات کا نعرہ لگا کر جو دھوکہ دیا گیا ہے، اس پر ڈاکٹر الیکسس کیرل نے اپنی کتاب Man The Unknom صفحہ 91 پر بڑی اچھی بحث کی ہے۔
مرد کی قوامیت ہر معاملہ میں ہے، چنانچہ امارت بھی مردوں کے ساتھ مخصوص ہے۔ حدیث میں ہے:
(اذا خرج ثلاثة في سفر فيلؤمروا احدهم)
(رواہ ابوداؤد، رقم: 2608)
"جب تین آدمی سفر کو نکلیں تو ایک کو امیر بنا لیں۔"
یہ حکم نظم و ضبط قائم رکھنے، فرائض شرعیہ کی ادائیگی اور اختلافات کو مٹانے کی غرض سے ہے تاکہ سفر اطمینان و سکون سے جاری رہے اور کوئی الجھن پیش نہ آئے۔
اور عورت پر جو مرد کی قوامیت کو ذکر کیا گیا، وہ مرد کو عورت پر اللہ کی عطا کردہ ہے۔ مرد اپنی عورت پر اسی طرح قوام ہے جیسے ایک بادشاہ اپنی رعیت پر قوام ہوتا ہے کہ وہ رعیت کو اوامرونواہی کی تلقین بھی کرتا ہے اور ان کی حفاظت و صیانت بھی کرتا، اور وہ اللہ تعالیٰ کے حضور اس کے بارے میں مسئول اور جواب دہ ہو گا۔ (تفسیر آیات الاحکام: ص 455)
چنانچہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
(ان اللّٰه سائل كل راع عما استرعاه، حفظ أم ضيع، حتي يسأل الرجل عن اهل بيته) (رواہ ابن حبان فی صحیحہ)
"بےشک اللہ تعالیٰ ہر راعی کو سوال کرے گا اس شے کے بارے میں جس کی وہ نگرانی کر رہا ہے کہ اس نے اس کی حفاظت کی یا اس کو ضائع کر دیا حتیٰ کہ مرد کو اس کے گھر والوں کے بارے میں بھی پوچھا جائے گا۔"
یہ سوال مرد کو اس لیے ہو گا کہ وہ بیوی پر اور اپنی اولاد کی تربیت پر نگران اور راعی مقرر کیا گیا ہے۔
|