Maktaba Wahhabi

207 - 421
مصری نے کوڑا لے کر گورنر مصر کے بیٹے کو مارنا شروع کیا یہاں تک کہ اس نے اپنا بدلہ لے لیا۔ اس کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: "اب عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی چندیا پر بھی کوڑے مار۔" مصری نے کہا: "امیر المؤمنین! اس کے بیٹے نے مجھے مارا ہے انہوں نے نہیں مارا، اور میں اپنا بدلہ لے چکا ہوں۔" آپ نے فرمایا: "مار اس کو بھی کیونکہ اس کی شہ پر اس نے تجھے مارا تھا۔" پھر آپ نے سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے فرمایا: (متي استعبدتم الناس؟ وقد ولدتهم امهاتهم احراراً) "تم نے کب سے لوگوں کو اپنا غلام بنا رکھا ہے حالانکہ ان کی ماؤں نے انہیں آزاد جنا ہے۔" سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: "مجھے اس واقعہ کا کچھ علم نہیں اور نہ یہ شخص شکایت لے کر میرے پاس آیا۔" (کنز العمال: 4/420) کسی مسلمان نے شام میں ایک ذمی کو قتل کر دیا۔ اس کا مقدمہ سیدنا ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کے پاس لایا گیا۔ سیدنا ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے اس بارے میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو لکھا۔ آپ نے جواب میں فرمایا: "اگر اس مسلمان میں ذمیوں کو قتل کرنے کی عادت پڑ چکی ہے تو اس کی گردن مار دو، اور اگر طیش میں آ کر جلد بازی کی ہے تو اس کی دیت ادا کرواؤ۔ (کنز العمال: 7/298) اسی طرح کا ایک واقعہ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کا بھی ہے کہ انہوں نے اپنی ایک زرہ کے بارے میں قاضی شریح کی عدالت میں ایک یہودی پر مقدمہ دائر کر دیا۔ قاضی شریح رحمہ اللہ نے خلیفہ وقت سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے شہادت طلب کی۔ وہ اپنے بیٹے سیدنا حسن رضی اللہ عنہ اور اپنے غلام کو گواہ کے طور پر لائے۔ قاضی شریح نے سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کی شہادت کو یہ کہہ کر رد کر دیا کہ بیٹے کی باپ کے حق میں شہادت قابل قبول نہیں۔ چنانچہ آپ نے یہودی کے حق میں زرہ کا فیصلہ کر دیا اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ خلیفہ وقت ہونے کے باوجود کچھ نہ کر سکے۔ یہودی اس عدل سے بہت متاثر ہوا، اور اسی وقت مسلمان ہو گیا، اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے کہا یہ زرہ واقعی آپ کی ہے۔ آپ کا دعویٰ درست اور صحیح تھا۔ آپ صفین سے واپس آ رہے تھے تو یہ زرہ آپ کے اونٹ سے گر گئی تھی۔ لہٰذا آپ اپنی زرہ
Flag Counter