Maktaba Wahhabi

187 - 421
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انہی ہدایات نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آنے والے سربراہان سلطنت کو ہوشیار اور خبردار کر دیا، اور وہ اس بات کی ہر ممکن کوشش کرتے تھے کہ ان کی سلطنت کے حدود و ثغور میں نہ صرف انسانوں بلکہ جانوروں کو بھی کسی قسم کی کوئی تکلیف نہ پہنچے، بلکہ ان کی ضروریات زندگی کی تکمیل کا اہتمام ہوتا رہے۔ چنانچہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا مشہور مقولہ ہے: "اگر دریائے فرات کے کنارے کوئی بکری بھی (ایک روایت میں اونٹ کا لفظ ہے) بے سہارا ہونے کی وجہ سے مر جائے تو مجھے گمان ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اس بارے میں مجھ سے ضرور باز پرس کریں گے۔" (سیرۃ عمر بن خطاب لابن جوزی: ص 161) آپ اکثر یہ فرمایا کرتے تھے: "اگر کسی نہر کے کنارے کوئی خارشتی بکری اس حال میں چھوڑی دی جائے کہ اسے علاج کے طور پر تیل کی مالش نہ کی جا سکے تو مجھے اندیشہ ہے کہ قیامت کے روز مجھ سے اس کے بارے میں جواب طلب کیا جائے گا۔" (التبر المسبوک، امام غزالی رحمہ اللہ: ص 17) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے اس ارشاد سے واضح ہوتا ہے کہ آپ کفالت عامہ کی ذمہ داری میں دوا اور علاج کو بھی داخل سمجھتے تھے۔ جو حکمران جانوروں کے علاج کو بھی اپنی ذمہ داری سمجھتا ہو وہ انسانوں کے علاج کو بدرجہ اولیٰ اپنی ذمہ داری میں داخل سمجھے گا۔ آپ اپنے ماتحت حکام کو بھی اس ذمہ داری کی طرف توجہ دلاتے رہتے تھے۔ بصرہ کے گورنر سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ جب ایک وفد کے ساتھ آپ سے ملاقات کے لیے آئے تو آپ نے ان لوگوں کو ہدایت فرمائی: "لوگوں کے گھروں میں ان کے لیے فراخی کا سامان فراہم کرو اور ان کے متعلقین کو کھلانے کا سامان کرو۔" (سراج الملوک، طرطوشی: صل 109) کفالت عامہ کی ذمہ داری صرف مسلمان شہریوں تک محدود نہیں سمجھی جاتی تھی بلکہ غیر مسلموں کو بھی اس سلسلہ میں وہی حیثیت حاصل تھی جو مسلمانوں کو تھی۔ سیدنا
Flag Counter