Maktaba Wahhabi

439 - 555
لفظ البخاری : عَلٰی أَعْمَالِہِمْ )) [1] ’’ اللہ تعالیٰ جب کسی قوم کو عذاب دینے کا ارادہ کرتا ہے تو اس قوم کے تمام افراد کو عذاب پہنچتا ہے ، پھر انھیں ان کی نیتوں پر( اور بخاری کی روایت میں ہے کہ ان کے اعمال پر ) اٹھایا جائے گا ۔ ‘‘ اسی طرح حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( اَلنِّیَاحَۃُ عَلیَ الْمَیِّتِ مِنْ أَمْرِ الْجَاہِلِیَّۃِ،وَإِنَّ النَّائِحَۃَ إِذَا لَمْ تَتُبْ قَبْلَ أَنْ تَمُوْتَ فَإِنَّہَا تُبْعَثُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عَلَیْہَا سَرَابِیْلُ مِنْ قَطِرَانٍ،ثُمَّ یُعْلٰی عَلَیْہَا بِدِرْعٍ مِنْ لَہَبِ النَّارِ )) [2] ’’ میت پر ماتم کرنا جاہلیت کے کاموں میں سے ہے ۔ اور ماتم کرنے والی عورت اگر توبہ کئے بغیر مرجائے تو اسے قیامت کے روز اس حال میں اٹھایا جائے گا کہ اس پر گندھک کا لباس ہو گا ، پھر اس کے اوپر اسے آگ کے شعلوں کی قمیص پہنائی جائے گی ۔‘‘ محترم بھائیو ! ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آخرت میں کامیابی کادار ومدار انسان کے خاتمہ اور اس کے آخری عمل پر ہے جس پر اس کی موت واقع ہوئی۔ لہذا ہم پر لازم ہے کہ ہم تمام گناہوں سے فورا سچی توبہ کرتے ہوئے اپنی اصلاح کرنے کی کوشش کریں اور عقیدۂ توحید اور نیک اعمال پر ثابت قدم رہیں تاکہ ہمارا خاتمہ اس حال میں ہو کہ ہمارا رب ہم سے راضی ہو ۔ اٹھنے کے بعد لوگ کہاں ہو ں گے ؟ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:﴿یَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَیْرَ الْأَرْضِ وَالسَّمٰوَاتُ وَبَرَزُوْا لِلّٰہِ الْوَاحِدِ الْقَہَّارِ﴾[3] ’’ جس دن اس زمین کے علاوہ کوئی اور زمین ہو گی اور آسمان بھی بدل جائیں گے اور تمام لوگ اللہ کے سامنے حاضر ہو ں گے جو ایک ہے اوروہ سب پر غالب ہے ۔ ‘‘ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ روزِ قیامت جب لوگوں کو اٹھایا جائے گا تواُس دن زمین وآسمان یہ نہیں ہونگے جو اس وقت ہیں بلکہ انہیں ختم کرکے اللہ تعالیٰ ان کی جگہ کوئی اور زمین پیدا فرمائے گا جس پر لوگوں کو جمع کیا جائے گا اور کوئی دوسرا آسمان لائے گا جس کے نیچے ان کا حساب وکتاب ہو گا ۔ اور حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھڑا تھا ۔ اِس دوران یہود کے علماء میں سے ایک عالم آیا اور اس نے کہا : اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا مُحَمَّدُ ! (حدیث طویل ہے اور اس میں ہے کہ)
Flag Counter