٭ چاند کا دو ٹکڑے ہوجانا۔ ٭ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو درختوں اور پتھروں کاسلام کرنا۔ ٭ تھوڑے سے کھانے کا(غزوۂ خندق کے موقعہ پر)بہت زیادہ ہوجانا۔ ٭ بعض غزوات میں فرشتوں کا نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل کر کافروں سے قتال کرنا۔ ٭ کھجور کے ایک تنے کا(مسجد نبوی میں)رونا۔ ٭ اسراء و معراج کا(سنہ ۱۰ سالِ نبوت میں)واقعہ۔ ٭ ایک درخت کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چل کر آنا۔ ٭ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے جناب قتادہ بن نعمان رضی اللہ عنہ کی نظر کا واپس مل جانا۔ س:۹۲… وہ کون لوگ ہیں کہ جن کی محبت پر ہم نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو ہمیشہ مقدم رکھیں ؟ اور یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا مقدم رکھنا واجب ہے؟ ج:۹۲… صحیحین کی احادیث کی رُو سے ہم پر واجب ہے کہ ہم اللہ عزوجل کے حبیب و خلیل پیغمبر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو اپنے والدین، بہن، بھائی، اپنی اولاد، ہر طرح کے اموال اور دنیا جہان کے تمام لوگوں کی محبت اور الفت سے زیادہ مقدم و افضل رکھیں۔ اسی طرح ہم پر یہ بھی واجب ہے کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو اپنی جان کے ساتھ پیار سے بھی زیادہ محبوب و مقدم جانیں۔ چنانچہ سیّدنا انس بن مالک اور جناب ابوہریرہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((وَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِیَدِہٖ لَا یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتَّی أَکُوْنَ أَحَبَّ إِلَیْہِ مِنْ وَالِدِہٖ وَوَلَدِہِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِیْنَ۔))[1] ’’ اُس ربّ ذوالجلال کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم میں سے کوئی شخص تب تک ایمان والا نہیں ہوسکتا حتی کہ میں اُس کے نزدیک اُس کے والدین(اور اس رشتہ کی برابری والے تمام عزیز و اقارب)اس کی اولاد(اور اس رشتہ کی |