نماز کو عورت،گدھا اور کالا کتا سامنے سے گذرکر کاٹ دیتے ہیں"(صحیح مسلم) ایک تیسری حدیث میں آپ نے ارشاد فرمایا: "جب تم میں سے کوئی شخص نماز پڑھے تو اپنے سامنے کوئی چیز رکھ لے،اگر کچھ نہ پائے تو لاٹھی ہی گاڑلے،اور اگر یہ بھی نہ ہوسکے تو ایک لکیر ہی کھینچ دے،پھر سامنے سے کسی چیز کے گزرنے پر اسے کوئی نقصان نہیں ہوگا"(مسند احمد اور ابن ماجہ بسند حسن) حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ بلوغ المرام میں فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے بعض اوقات بغیر سترہ کے نماز پڑھی ہے،جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ سترہ رکھنا واجب نہیں۔ البتہ مسجد حرام کی نماز اس حکم سے مستثنیٰ ہے،مسجد حرام میں نماز پڑھنے والے کو سترہ رکھنے کی ضرورت نہیں،جیسا کہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ثابت ہے کہ وہ مسجد حرام میں بلا سترہ کےنماز پڑھتے تھے اور طواف کرنے والے ان کے سامنے سے گزرتے رہتے تھے،اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی اس مفہوم کی ایک حدیث مروی ہے مگر اس کی سند ضعیف ہے۔سترہ کی مشروعیت مسجد حرام میں اس لیے بی ساقط ہے کہ مسجد حرام میں عموماً بھیڑ بھاڑ ہوتی ہے اور نمازی کے آگے سے گزرنے سے بچنا ناممکن ہوتا ہے،نیز بھیڑ بھاڑ کے اوقات میں مسجد نبوی اور دیگر مسجدوں کا بھی یہی حکم ہے،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "فَاتَّقُوا اللّٰهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ"(التغابن:16) "اپنی طاقت کے مطابق اللہ سے ڈرتے رہو" اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: |