ترین قول کے مطابق یہ کفر اکبر ہے بھلے ہی وہ نماز کے وجوب کا منکر نہ ہو،اور اس حکم میں مرد وعورت دونوں یکساں ہیں،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: "آدمی کے اور کفر وشرک کے درمیان نماز چھوڑنے کا فرق ہے"(صحیح مسلم) ایک دوسری حدیث میں آپ نے ارشاد فرمایا: "ہمارے اور ان(کافروں)کے درمیان نماز کا فرق ہے،تو جس نے نماز چھوڑ دی اس نے کفر کیا"(اس حدیث کو امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور ائمہ سنن نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے) نیز اس مفہوم کی اور بھی بہت سی حدیثیں وارد ہیں۔ مگر جو شخص نماز کے وجوب کا منکر ہو بھلے ہی وہ نماز پڑھتا ہو،تو اہل علم کے اجماع کے مطابق وہ کافر ہے۔اللہ ہمیں اور تمام مسلمانوں کو اس بری خصلت سے محفوظ رکھے۔آمین تمام مسلمانوں کے لیے باہم حق بات کی نصیحت کرنا نیز نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے کا تعاون کرنا ضروری ہے،چنانچہ جو شخص جماعت سے پیچھے رہتا،یا نماز میں سستی کرتا،یا بعض اوقات بالکل نماز پڑھتا ہی نہ ہو اسے اللہ کے غضب وعقاب سے ڈرانا چاہیے،خصوصاً اس کے ماں،باپ،بھائی،بہن اورگھر والوں کو اسے برابر نصیحت کرتے رہنا چاہیے،یہاں تک کہ وہ راہ راست پر آجائے،ایسے ہی اگر عورتیں بھی نماز میں سستی کریں یا چھوڑ دیں،تو انہیں بھی نصیحت کرتے ہوئے اللہ کی ناراضگی اور اس کے عقاب سے ڈرانا چاہیے،بلکہ نصیحت نہ قبول کرنے کی صورت میں ان کا بائیکاٹ کرنا اور ان کے ساتھ مناسب تادیبی کاروائی کرنا بھی ضروری ہے کیونکہ یہی باہمی تعاون اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا تقاضا ہے جسے اللہ تعالیٰ |