اگر کسی نے عمرہ شوال کے اول ایام میں کیا تو عمرہ اور(آٹھویں ذی الحجہ کو)حج کے احرام کے درمیان مدت طویل ہو گی اس لیے افضل یہی ہے کہ آٹھویں ذی الحجہ کو ہی حج کی نیت کرے جیسا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق کیا تھا۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین جب مکہ مکرمہ پہنچے تو ان میں سے بعض مفرد تھے اور بعض قارن،آپ نے سب کو حکم دیا کہ عمرہ کے بعد احرام کھول دیں سوائے ان لوگوں کے جو قربانی کا جانور ساتھ لائے تھے۔ چنانچہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے طواف اور سعی کیا اور بال کٹوا کر حلال ہو کر متمتع بن گئے۔اور پھر آٹھویں ذی الحجہ کو آپ نے ان سب کو اپنی اقامت گاہوں سے حج کی نیت کرنے کا حکم دیا۔اس لیے افضل یہی ہے لیکن اگر کوئی شخص شروع ذی الحجہ یا اس سے پہلے ہی حج کی نیت کر لیتا ہے تو بھی صحیح ہو گا۔ سوال نمبر15: اس شخص کے بارے میں کیا حکم ہے جو بغیر احرام باندھے میقات سے آگے بڑھ جائے۔چاہے حج یا عمرہ کے لیے جا رہا ہو یا کسی اور کام سے؟ جواب: جو شخص حج اور عمرہ کے لیے جا رہا ہو اور میقات سے آگے بڑھ |