چاند ظاہر نہ ہو تو تیس کی گنتی پوری کرو"(متفق علیہ) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث بھی ثابت ہے۔ "تم روزہ نہ رکھو یہاں تک کہ چاند دیکھ لویا(شعبان کی)گنتی پوری کر لو،اور افطار نہ کرو یہاں تک کہ چاند دیکھ لویا(رمضان کی)گنتی پوری کر لو۔" اس معنی کی اور بھی بہت سی احادیث وارد ہیں۔ ان احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جاننے کے باوجود اختلاف مطلع کی جانب کوئی اشارہ نہیں فرمایا:لیکن کچھ اہل علم اس طرف گئے ہیں کہ مطلع بدل جانے کی صورت میں ہر شہر والوں کے لیے چاند دیکھنے کا اعتبار ہو گا ان کی دلیل ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ اثرہے کہ مدینہ طیبہ میں تھے اور انھوں نے اہل شام کی رویت کا اعتبار نہ کیا۔ملک شام والوں نے معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ میں جمعہ کی رات رمضان کا چاند دیکھا اور اسی کے مطابق روزہ رکھالیکن اہل مدینہ نے وہی چاند ہفتہ کی رات دیکھا اور جب حضرت کریب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اہل شام کے چاند دیکھنے اور روزہ رکھنے کا تذکرہ کیا تو ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ہم نے ہفتہ کی رات چاند دیکھا ہے اس لیے ہم روزہ رکھیں گے یہاں تک کہ(عید کا)چاند دیکھ لیں یا پھر(رمضان کی)گنتی پوری کر لیں ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث سے استدلال کیا: "چاند دیکھ کر روزہ رکھو،اور چاند دیکھ کر افطار کرو۔" اہل علم کے اس قول کے اندر تقویت پائی جاتی ہے اور سعودی عرب کی "مجلس ہئیت کبار علماء "کے ممبران کی رائے بھی یہی ہے کیونکہ اس سے مختلف دلائل کے درمیان تطبیق ہو جاتی ہے واللہ ولی التوفیق۔ |