Maktaba Wahhabi

26 - 61
((مَاھُمْ بِمُسْلِمِیْنَ،مَاھُمْ بِمُسْلِمِیْن)) [1] ’’وہ مسلمان نہیں ہیں،وہ مسلمان نہیں ہیں۔‘‘ اگرکسی صاحب کے پاس حج کی طاقت ہو اور پیسہ بھی ہو تو اس پر حج لازم ہوگا۔ مگر بیٹی والے والدین اپنی بیٹی کی شادی کی فکر میں یعنی جوڑے کی رقم دے کر داماد کو خرید نے کی فکر میں حج کو بھول جاتے ہیں اور کعبۃاللہ کی زیارت جیسے فرض کو پسِ پشت ڈال دیتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ جوڑے کی رقم اداکرناحج سے بھی زیادہ اہم ہے۔ جبکہ سفرِ حج کیلئے زادِراہ موجود ہوتو اس کو حج کے سوا دوسرے امور میں خرچ نہیں کرنا چاہیئے۔ لفظ استطاعت و طاقت کے صحیح مطلب ومفہوم سے بکثرت لوگ ناواقف ہیں یا انجان بنے ہوئے ہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے بیت اللہ تک پہنچنے اور واپس ہونے تک کا خرچ جس کے پاس ہو اس پر حج فرض ہے۔ چنانچہ استطاعت کا صحیح مفہوم یہی ہے کہ جس کے پاس مکہ مکرمہ تک آمد ورفت اور خوردونوش کا خرچہ (ان دنوں کم وبیش ۹۰ہزارروپئے)اور اس عرصہ کیلے اہلِ خانہ کے ضروری اخراجات کیلئے پیسے موجود ہوں،اس پر حج کرنا فرض ہوگیا ۔[2] جب اتنا مال ہاتھ میں موجود ہو اور اس پر قرض نہ ہو تو کوئی وجہ اس کے لئے حج نہ کرنے کاشرعی عذر نہیں بن سکتی۔ اِلاَّ یہ کہ وہ شدید بیمار ہو یا وقت کے ظالم حکمران کی طرف سے روک ہو(جو آج کل نہیں ہے) اسی طرح بیٹی کی شادی،بیوہ بہن کی سرپرستی، پڑوس کی غمگساری وغیرہ کی موجودگی حج نہ کرنے کا سبب یا عذر نہیں بن سکتے۔ مگر افسوس کہ اس کار ِثواب پر، عمل تو کجا، دامادوں کی خریداری جیسے عمل کی خاطر حج جیسے عظیم فریضہ کو ترک کیا جارہا ہے۔جبکہ حدیث میں طاقت کے باوجود حج نہ کرنے والے کیلے سخت وعید آئی ہے جیسا ابھی قریب ہی حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ کا ارشاد گزراہے۔
Flag Counter