Maktaba Wahhabi

22 - 61
سونے کی قیمتِ خرید دیں۔ویسے محدثین مہر نقداداکرنے کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔ جہیز یا جوڑے کے پیسے کو حلال بتانے کیلئے بعض لوگ ایک بہانہ یہ بناتے ہیں کہ یہ پیسہ جو ہم لے رہے ہیں لڑکی کا حق ہے۔ لڑکی اپنے والدین کے مال میں وراثت کا حق رکھتی ہے۔ یہ وہی(لڑکی کاورثہ کا مال) پیسہ ہے جو ہم ڈوری یا جہیز کی شکل میں لیتے ہیں۔ ذرا غور کرنے پر پتہ چلے گا کہ یہ کیسی واہیات قسم کی منطق ہے۔ 1 اگر لڑکی کا باپ غریب و لاچار، بے کس ومفلس اورقلاش ہے کیا تب بھی اس کی بیٹی ایک لاکھ روپیہ کی وراثت کا حق رکھتی ہے؟ 2 اگر کوئی باپ مالداراور صاحبِ استطاعت ہوتو بھی کیا ضروری ہے کہ وہ اپنی زندگی میں ہی اپنی وارثت کو تقسیم کردے؟ 3 بالفرض اگر لڑکی کا باپ اپنی بیٹی کو وراثت کا پیسہ دینا بھی چاہے تو حقداریعنی لڑکی کو حق پہنچنا چاہیئے۔ لڑکی کے حق کو لڑکے والوں کا زبردستی وصول کرنا کہاں کا انصاف ہے؟یہ سراسر ظلم وبربریت ہے۔ ہندو لڑکی کو وراثت کا حقدار تسلیم نہیں کرتے ۔اس لئے انہوں نے (شائد) ڈوری کی رسم ایجاد کرلی۔ مگر دینِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم میں لڑکی بھی وراثت میں حقدار ہے، پھر ہندؤں کے طرز کو اپنا نا اور خود کو مسلمان کہنا کہاں تک درست ہے؟ آج معاشرہ میں لڑکی والوں کا مال جوڑے اور جہیز کے روپ میں لوٹ کر کھانے کوشان سمجھا جاتاہے، جو جتنا زیادہ لوٹے اس کو اتنا ہی کامیاب دولہا سمجھا جاتا ہے، جو شادی میں جتنی زیادہ فضول خرچی کرے گا اس کو اتناہی سوسائٹی میں اونچا مقام دیا جاتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ اپنے کلامِ مجید میں عورتوں پر مردوں کا درجہ بیان کرتے ہوئے سورۃ البقرۃ میں فرمارہا ہے: { اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَی النِّسَآئِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَہُمْ عَلَی بَعْضٍ وَبِمَآ أَنْفَقُوْا مِنْ أَمْوَالِہِمْ} (سورۂ النساء :۳۴)
Flag Counter