عرض ناشر
کتاب وسنت کی تشریح و توضیح کے ضمن میں جو مختلف علوم و فنون وجود میں آئے،ان میں ایک نافع، مفید اور رہنمائی کا فرض ادا کرنے والا شعبہ علم و تحقیق کا عنوان ’’فتاویٰ‘‘ ہے۔ علمی زندگی کے کار زار میں ایک بندہ مسلم کو عقائد وعبادات اور مسائل ومعاملات میں مختلف نوعیت کے سوالات، اشکال اور الجھنیں پیش آتی ہیں ۔ یہ ایک فطری بات ہے کہ ایسے لوگ اگر صاحبان علم اور ارباب بصیرت ہوں تو براہ راست کتاب وسنت سے رہنمائی حاصل کریں گے، بصورت دیگر وہ اپنی ذہنی الجھنوں اور مسائل ومشکلات کواہل علم اور ارباب تحقیق کے سامنے پیش کریں گے تو علمائے دین اور ارباب تحقیق ادلیہ شرعیہ کی روشنی میں انہیں جواب فراہم کریں گے۔ دینی اصطلاح میں ایسے جواب کوفتویٰ اور جواب دینےوالے کو مفتی کہا جاتا ہے ۔
قرآن مجید کے مطالعے سے معلوم ہوتاہے کہ اللہ تعالیٰ نےبہت سےمقامات پر خود سوال کیے ہیں اور پھر خود ہی ان کے حتمی اور قطعی جواب فراہم کیے ہیں ۔ قرآن حکیم میں اس نوع کے جوابات کی نوعیت اگرچہ حدود ونصوص کے دائرے میں آتی ہے مگر ہم انہیں بڑی آسانی سے فتاویٰ بھی قرار دےسکتےہیں ۔ یوں قرآن مجید فتاویٰ کا بنیادی ماخذ ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات خود شارع کی حیثیت رکھتی ہے جس کےجواب اور فتوے کو نہ تو چیلنج کیا جا سکتا ہے اور نہ اس میں کوئی تبدیلی ہی کی جا سکتی ہے ۔ قرآن مجید نے بندگان الہٰی کو اپنے مسائل ومشکلات رفع کرنے کے سلسلے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سےرجوع کرنے کا مشورہ بھی دیاہے ۔
اشاد باری تعالیٰ ہے :
﴿ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ﴾ (النساء: 4؍ 59)
’’اوراگر کسی موضوع پر تمہارےدرمیان اختلاف ہو تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف رجوع کرو، اگر تم اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘
مزید فرمایا:
﴿ وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا ﴾ (الحشر: 59؍ 7)
|