Maktaba Wahhabi

714 - 829
بخاری فرماتے ہیں:سَکَتُوْا عَنْہُ (امام بخاری کے نزدیک یہ کلمہ متروک الحدیث کے شبیہ ہے۔ ملاحظہ ہو :اختصار علوم الحدیث للحافظ ابن کثیر ص۱۱۸۔ پھر شیخ البانی اپنے رسالہ ’’صلوۃ التراویح‘‘میں فرماتے ہیں۔ وَلِذَالِکَ فَإنِّیْ ارٰی انَّ حَدِیْثَہ ھٰذَا فِیْ حُکْمِ الْمَوْضُوْعِ لِمُعَارَضَتِہ لِحَدِیْثِ عَائِشَۃَ وَجَابِرٍ کَمَا سَبَقَ عَنِ الْحَافظَیْنِ الزَّیْلَعِیِّ وَالْعَسْقَلَانِیِّ ’’اور اسی لئے میری رائے یہ ہے کہ ابن عباس سے روایت موضوع کے حکم میں ہے کیونکہ یہ عائشہ اور جابر کی احادیث کے بھی معارض ہے جیسا کہ حافظ زیلعی اور حافظ عسقلانی کے اقوال میں گزرا ہے۔‘‘ خلاصہ کلام یہ ہے کہ مذکورہ بالا روایت قابل احتجاج و اعتبار نہیں ہے اس لئے حضرت عائشہ اور جابر کی روایت پر عمل کیا جائے گا جس میں آٹھ رکعت کا ذکر ہے۔ حضرت عمر بن خطاب (رضی اللہ عنہ) سے بیس تراویح ثابت نہیں اور نہ ہی ان کے دورِ خلافت میں یہ صحابہ کا معمول رہا بلکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سب کو جمع کر کے ابی بن کعب اور تمیم داری کو گیارہ رکعات پڑھانے کا حکم دیا تھا جیسا کہ موطا امام مالک [1]میں ہے۔ عَنْ مُّحَمَدَّ بْنِ یُوْسُفَ عَنِ السَّائِبِ بْنِ یَزِیْدَ انَّہ قَالَ امَرَ عُمَرُبْنُ الْخَطَّابِ اُبَیَّ بْنَ کَعْبٍ وَّتَمِیْمًا الدَّارِیَّ انْ یَّقُوْمَا لِلنَّاسِ بِإحْدٰی عَشَرَۃَ رَکْعَۃً قَالَ وَقَدْ کَانَ الْقَارِیُٔ یَقْرَء ُ بِالْمِئِیْنِ حَتّٰی کُنَّا نَعْتَمِدُ عَلٰی الْعِصِیِّ مِنْ طُوْلِ الْقِیَامِ وَمَا کُنَّا نَنْصَرِفُ إلَّا فِیْ فُروْعِ الْفَجْرِ ’’سائب بن یزید فرماتے ہیں خلیفۃ المسلمین حضرت عمر بن خطاب ( رضی اللہ عنہ )نے ابی بن کعب اور تمیم داری کو حکم دیا تھا کہ لوگوں کو گیارہ رکعت پڑھایا کریں۔ راوی کا بیان ہے کہ قاری مئین سورتیں پڑھتا یہاں تک کہ ہم طول قیام کی وجہ سے لاٹھیوں پر ٹیک لگاتے اور ہم پو پھٹنے کے قریب (گھروں کو) واپس ہوتے۔‘‘ محدث شام شیخ البانی فرماتے ہیں: ((قُلْتُ:َھٰذَا سَنَدٌ صَحِیْحٌ جِدًّا فَإِنَّ مُحَمَّدَ بْنَ یُوْسُفَ شَیْخ مَالِکٍ ثِقَۃٌ اِّتفَاقًا وَّاحْتَجَّ
Flag Counter