Maktaba Wahhabi

551 - 829
کے کیا معنی؟ اور اس صورت میں قتادہ کی تدلیس کی کفایت کرنے سے شعبہ کا یہ مطلب ہو گا، کہ جب قتادہ کا کوئی دوسرا شاگرد ایسے صیغہ کے ساتھ روایت کرے جس میں سماع کی تصریح نہ ہو تو وہ روایت میرے پاس لاؤ۔ میں اس کی تمیز کردوں گا، کہ وہ سماع والی ہے یا نہیں۔ کیوں کہ میں اس کی بڑی جستجو رکھتا تھا۔ پس یہ عبارت اس بات کی دلیل ہوئی کہ یہ ’’عن‘‘ والی روایت شعبہ کی نہیں۔ بلکہ کسی راوی کی غلطی سے شعبہ کی طرف نسبت ہو گئی ہے اور اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے، کہ مالک بن حویرث راوی حدیث کا اپنا عمل اس حدیث پر نہیں، کیوں کہ وہ صرف رکوع کو جاتے، اور رکوع سے اٹھتے وقت رفع یدین کرتے تھے۔ جیسے مسلم باب استحباب رفع الیدین… الخ میں اور بخاری باب رفع الیدین …الخ میں ہے۔ ہاں اگر تدلیس کی کفایت کرنے سے شعبہ کا مطلب یہ لیا جائے، کہ جن روایتوں میں قتادہ نے سماع کی تصریح نہیں کی ان کی بابت بعد کو شعبہ نے قتادہ سے تحقیقات کرکے ’’سماع‘‘ والی اور ’’غیر سماع‘‘ والی کے درمیان تمیز کرلی اور روایت کرنے کے وقت اسی لفظ سے روایت کیں، جس لفظ کے ساتھ سنی تھیں۔جو ’’سماع‘‘ کے لفظ کے ساتھ سنیں۔ وہ ’’سماع‘‘ کے لفظ کے ساتھ روایت کیں اور جو ’’عن‘‘ وغیرہ کے ساتھ سنیں وہ ’’عن‘‘ وغیرہ کے ساتھ روایت کیں تو اس وقت بے شک حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا قاعدہ کہ شعبہ کی روایت ان تینوں سے سماع پر محمول ہے درست ہو گا اوراس قاعدہ کی بناء پر رفع یدین کی حدیث صحیح ہو گی۔ لیکن شعبہ کے مطلوب میں چونکہ شبہ پڑ گیا ہے، اس لیے تسلی پوری طرح نہیں ۔کیوں کہ(( اِذَا جَائَ الاِحتِمَالُ بَطَلَ الاِستِدلَالُ )) اس کے علاوہ مالک بن حویرث کا صرف دو جگہ رفع یدین بتلا رہا ہے، کہ سجدہ کی رفع یدین کوئی مستقل رفع یدین نہیں، بلکہ یہ وہی ہے جو سجدہ کو جاتے اور سجدہ سے سر اٹھاتے وقت ہاتھ رکھے اور اٹھائے جاتے ہیں۔ کیونکہ احادیث کے مطابق دونوں ہتھیلیاں سجدہ میں کبھی کندھوں کے برابر، کبھی منہ کے دونوں طرف رکھی جاتی ہیں اور سجدہ سے سر اٹھاتے وقت ساتھ اٹھائی جاتی ہیں۔ا س کی شکل و صورت بظاہر رکوع کو جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کی سی بن جاتی ہے۔ اس لیے راوی نے کبھی صورت و شکل کا لحاظ کرتے ہوئے رکوع کے رفع یدین کے ساتھ اس کا بھی ذکر کردیا اور کبھی یہ خیال کرتے ہوئے کہ یہ رکوع کا مستقل رفع یدین ہے۔ یہ کوئی الگ رفع یدین نہیں، اس کا ذکر چھوڑ دیا اور عبد اﷲ بن عمر اور حضرت علی رضی اللہ عنہم وغیرہ کی احادیث میں جو وارد ہے، کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں رفع یدین نہیں کرتے تھے، اس سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ یعنی انھوں نے بھی اس کے مستقل نہ ہونے کی وجہ سے نفی کردی ہے۔ آپ نے ان احادیث کو معارض بتایا ہے حالانکہ یہ مؤید ہیں۔ پھر آپ کا یہ کہنا بھی غلط ہے کہ عدمِِ رؤیت اثباتِ رؤیت
Flag Counter