Maktaba Wahhabi

459 - 829
کَفٰی بِالمَرئِ کَذِبًا أَن یُحَدِّثَ بِکُلِّ مَا سَمِعَ ۔ رَوَاہ مسلم فی مقدمۃ صحیحہٖ ۔ وَ عَلَیہِ أَقُولُ: کَفٰی بِالمَرئِ ضَلَالًا أن یَعمَلَ بِکُلِّ مَا سَمِعَ )) ہم مشرق و مغرب میں اپنے مسلمان بھائیوں کو نصیحت کرتے ہیں، کہ وہ ضعیف احادیث پر عمل کو کلی طور پر ترک کردیں اور اپنی ہمتوں کو صرف انہی احادیث پر مرکوز کردیں، جو نبی علیہ السلام سے ثابت ہیں۔ ان میں وہ چیز موجود ہے جو ضعیف احادیث سے انسانوں کے لیے کافی ہو اور اس میں نجات ہو۔ چہ جائیکہ انسان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ کا ارتکاب کر بیٹھے، کیونکہ ہم تجربہ کی بناء پر جانتے ہیں کہ جو لوگ اس میں مخالفت کرتے ہیں، وہ کذب میں واقع ہوئے ہیں، کیونکہ وہ ہر قسم کی غث و سمین پر عمل کے عادی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرف اشارہ فرماتے ہیں، کہ انسان کے لیے یہی جھوٹ کافی ہے، کہ وہ ہر سنی بات بیان کردے اور میں کہتا ہوں۔ یہی گمراہی کافی ہے، کہ آدمی ہرسُنی بات پر عمل کرے۔ خلاصۂ کلام یہ ہے ، کہ محققین علمائے امت اس بات پر متفق ہیں، کہ شریعت اور اس کی جزئیات خواہ وہ عملی ہوں یا فضائلِ اعمال ان کا اعتبار اسی صورت میں ہو گا جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہ نقلِ صحیح ثابت ہوں۔ اگر کوئی چیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہ ہو یا اس کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ضعیف ہو، تو اسے مشروع نہیں سمجھا جائے گا۔ کیونکہ یہ وعید بالفاظِ تواتر ثابت ہے: ((َن کَذَبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّدًا فَلیَتَبَوَّأ مَقعَدَہٗ مِنَ النَّارِ)) [1] یعنی ’’ جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قصداً جھوٹ بولے۔ وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ کی ایک شکل یہ ہے، کہ کسی بات کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت اعتماد نہ ہو، کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا قول و فعل اور تقریر ہے اور وہ یقینی صیغوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت کی جائے۔ ضعیف حدیث کے بارے میں کوئی شخص یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ وہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی سنت ہے۔ لہٰذا اس کی اتباع کی صورت میں ظن مرجوح پر عمل لازم آئے گا۔ جبکہ اللہ تعالیٰ نے اس کی مذمت فرمائی ہے: ﴿اِن یَّتَّبِعُونَ اِلَّا الظَّنَّ وَ اِنَّ الظَّنَ لَا یُغنِی مِنَ الحَقِّ شَیئًا﴾(النجم:۲۸) (و اخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین) سوال: کیا ﴿إِنَّ اِلَینَا اِیَابَھُم ثُمَّ اِنَّ عَلَینَا حِسَابَھُم﴾(الغاشیۃ:۲۶) کے جواب میں (( اَللّٰھُمَّ حٰسِبنِی حِسَابًا یَّسِیرًا)) کا ثبوت ہے اور اگر ہے تو صرف امام جواب دے یا مقتدی بھی شامل ہوں گے؟
Flag Counter