Maktaba Wahhabi

455 - 829
وجہ یہ ہے کہ جب اصل عمل تو صحیح دلائل سے مشروع ہو اور اس مشروع عمل کی فضیلت کے بارے میں ایسی حدیث(خفیف، ضعیف) ذکر کردی گئی، جس کا جھوٹ ہونا معلوم نہیں تو(نفس عمل) مشروع ہونے کی بناء پر ثواب تو درست ہے ( البتہ ضعیف حدیث سے ثواب کی کیفیت یا کمیت کا تعلق ہی باقی رہ جائے گا، جو اسرائیلیات کے درجہ کی بات ہو گی۔ ظاہر ہے کہ جب اسرائیلی روایات شرعِ محمدی کے خلاف نہ ہوں، تو وعظ و نصیحت میں ان کا ذکر جائز ہے۔ لیکن مسائل میں ان کا کسی درجہ اعتبار نہیں) فرماتے ہیں:کہ کوئی امام (بشمول احمد بن حنبل رحمہ اللہ وغیرہ) یہ نہیں کہتا کہ ضعیف احادیث کا اعتبار کرکے کوئی بات واجب یا مستحب قرار دینی جائزہے اور جو شخص (ضعیف حدیث کے کسی درجہ اعتبار کی) یہ بات کرتا ہے ، وہ اجماعِ امت کی مخالفت کرتا ہے (خطوط و حدانی میں مذکور باتیں بھی ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی اگلی عبارت کا مفہوم ہیں) متذکرہ بالا عبارت سے حسبِ ذیل باتیں حاصل ہوتی ہیں۔ ۱۔ صحیح اور حسن حدیث کے علاوہ ضعیف احادیث پر اعتبار جائز نہیں۔ ۲۔ پوری امت اس بات پر اجماع کر چکی ہے، کہ ضعیف حدیث سے وجوب یا استحباب پر استدلال جائز نہیں، اور ائمہ سے اس کا کوئی بھی قائل نہیں۔ ۳۔ محدثین کے نزدیک معرض استدلال اور روایت میں ضعیف احادیث کا اعتبار نہیں لیکن احمد بن حنبل رحمہ اللہ وغیرہ بعض علماء چند شروط سے فضائلِ اعمال میں ان کی صرف روایت جائز سمجھتے ہیں۔ لیکن روایتِ حدیث کے بارے میں بھی محدثین کا مسلک صحیح مسلم کے ’’مقدمہ‘‘ سے ملاحظہ فرمائیے۔ حافط ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ شرح ترمذی(ق:۱۱۳؍۳) میں فرماتے ہیں: ((وَ ظَاھِرُ مَا ذَکَرَہُ مُسلِمٌ (یَعنِی الصَّحِیح) یَقتَضِی اَنَّہٗ لَا تُروٰی اَحَادِیث التَّرغِیب اِلَّا عَمَّن تُروٰی عَنہُ الاَحکَامُ)) امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی ’’صحیح‘‘ کے مقدمہ میں ظاہراً یہ مسلک بیان کیا ہے، کہ ترغیب وترہیب (فضائلِ اعمال) میں بھی صرف وہ احادیث روایت کی جائیں جو احکام میں روایت کی جاتی ہیں۔ یعنی محدثین کا اختلاف ضعیف حدیث کی صرف روایت میں ہے۔ اس کے اعتبار نہ کرنے پر سب متفق ہیں۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ وغیرہ کا بعض اعمال میں تساہل روایت کی حد تک ہے۔ غور فرمائیے! اس دَور میں جب کہ احادیث کی تدوین مکمل نہیں ہوئی تھی۔ اگر احمد بن حنبل رحمہ اللہ وغیرہ
Flag Counter