Maktaba Wahhabi

270 - 829
ابتداء ہی سے خلفائے راشدین کے طرزِ عمل کو سنت سے ٹکرانا اور اسُے غلط بتانا درست طریقِ کار نہیں۔ بالخصوص جب کہ دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم سے اس پر نکیر بھی وارد نہیں ہوئی ہو۔ اگر خلفائے راشدین کا طرزِ عمل سنت سے انحراف کا ہوتا تو حدیث میں اس پر سنت کا اطلاق بھی نہیں ہونا چاہیے تھا۔ حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے نہ صرف سنت کا لفظ بولا بلکہ اسے مضبوطی سے اختیار کرنے کی تلقین بھی فرمائی۔ ((عَلَیکُم بِسُنَّتِی وَ سُنَّۃِ الخُلَفَائِ الرَّاشِدِینَ)) [1] اس کا واضح مفہوم یہ ہے کہ خلفائے راشدین کا طریقہ اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کے مختلف پہلوؤں ہی کی وضاحت ہوتا ہے۔ اس لیے دونوں کے بظاہر مختلف نظر آنے پر پہلی صورت دونوں کو جمع کرنے کی اختیار کرنی چاہیے۔ جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی اذان میں بوجوہ موجود ہے۔ ان کے طرزِ عمل کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے طریقے کے ساتھ اسی لیے جمع کیا کہ وہ بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نائب ہونے کے منصب سے دین اور اس کے مختلف پہلوؤں کی حفاظت کرنے والے ہوتے ہیں۔ لہٰذا ان کے بارے میں دین میں تبدیلیاں یا بگاڑ کا تصور اتنا آسان نہیں۔ خصوصاً جمعہ کی پہلی اذان جیسا مسئلہ جس پر نہ صرف صحابہ نے اعتراض نہیں کیا بلکہ رواج اس پر پختہ ہوا۔ البتہ اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے خلفائے راشدین کی کسی رائے کے اتفاق کی کوئی صورت ممکن نہ ہو تو بلاشبہ شریعت سنَّت رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہو گی ۔ کیونکہ خلفائے راشدین کو شریعت میں اضافہ کی اجازت نہیں۔ لیکن جس بات کی دلیل شریعت میں موجود ہو وہ شریعت میں تبدیلی یا اضافہ نہیں ہوتی۔ جیسا کہ اذانِ عثمانی کے بارے میں اُوپر واضح ہو چکا۔ ایسی چیزوں کے بارے میں ہی سنتِ خلفائے راشدین کا لفظ استعمال کیاجاتا ہے۔ ورنہ اگر ہر بات جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں موجود ہو وہی سنت ہو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سنت کے ساتھ خلفائے راشدین کی سنت کو اختیار کرنے کا حکم ہی کیوں فرمایا؟ ظاہر ہے کہ وہ بظاہر ایک الگ فعل ہو گا۔ لیکن دلیل شرعی کے تحت آجانے کی وجہ سے سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا تتمَّہ بن جاتا ہے۔ ۵۔ اذانِ عثمانی کے بارے میں بعض ائمہ کے لفظ’’بِدعَۃٌ‘‘ یا ’’مُحدَثٌ‘‘ سے کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ شاید ان کے نزدیک یہ اذان اصطلاحی بدعت کی مذموم شکل ہے۔ حالانکہ ائمہ ایسی نئی صورتوں کو بھی لفظ ’’مُحدَثٌ‘‘ہی سے تعبیر کرتے ہیں۔ جن کی شکل نئی ہو۔ خواہ اس کی دلیل شریعت میں موجود ہو۔
Flag Counter