Maktaba Wahhabi

269 - 829
کی خصوصیت کا کوئی دخل نہیں، شانِ نزول کی طرح سبب حدیث کے اصولوں میں یہ بات مُسَلَّمہ ہے کہ خاص جگہ یا اشخاص میں شریعت محدود نہیں ہوا کرتی۔ ( اَلعِبرَۃُ بِعُمُومِ اللَّفظِ لَا بِخُصُوصِ السَّبَبِ) ۳۔ چونکہ عثمانی اذان کا سبب شرعی تھا۔ مسلمانوں کا پھیلاؤ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ اور اس کے بعد برابر زیادہ ہی ہوتا رہا ہے۔ اس لیے اس اذان پر عمل بھی برابر جاری رہا۔اس کو امام زہری رحمہ اللہ نے’’فَثَبَتَ الأَمرُ عَلٰی ذٰلِکَ ‘‘ سے روایت کیا ہے، جس کا مفہوم واضح ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے اس عمل کا سلسلہ بعد کے زمانوں میں بھی چلتا رہا۔ امام ابن ابی ذئب نے ، جن کو وَرَع و تقویٰ کے اعتبار سے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے امام مالک رحمہ اللہ پر مقدم سمجھا ہے، اس اذان کے بارے میں’’فَثَبَتَ عَلٰی ذٰلِکَ حَتّٰی السَّاعَۃ‘‘ کے الفاظ بھی ذکر کیے ہیں۔ یعنی ’’ان کے زمانے تک یہ عمل قائم رہا۔‘‘ ان کبار ائمہ کی طرف سے الفاظِ حدیث کے بعد والے تبصرے کا مفہوم یہ بتانا کہ یہ اذان صرف امام أبوداؤد وغیرہ کے زمانہ میں عام ہوئی۔ کبار ائمہ کو فہمِ حدیث میں تلقین کرنے کے مترادف ہے۔[1] ادارہ ’’الاعتصام‘‘ مولانا عبید اﷲ عفیف صاحب کی تائید سے گھڑیوں، موجودہ لاؤڈ اسپیکروں کی موجودگی اور مساجد کی کثرت کی وجہ سے جو اس ضرورت کو اب اہمیت نہیں دے رہا، تو یہ بنیاد بھی درست نہیں۔ کیونکہ ضرورت صرف نماز کے وقت کی اطلاع دینے کی نہیں ہوتی بلکہ نمازیوں کی کثرت کی وجہ سے وقت سے پہلے تیاری کے لیے خبردار کرنے کی بھی ہے۔ [2] ہم اُوپر صبح کی پہلی اذان کے بارے میں توجیہ پیش کر چکے ہیں، جو اسی طرح نماز کے وقت سے پہلے ہوتی تھی۔ وقت سے پہلے نماز یا خطبہ کی تیاری وقتی اور ہنگامی ضرورت نہیں ہے بلکہ ایک مستقل ضرورت ہے۔ اسی لیے اس عمل پر اعتراض صحابہ رضی اللہ عنہم کے زمانہ میں ہوا اور نہ بعد میں اس کی مذمت کسی نے کبھی اس وجہ سے کی ۔ مولانا عبیداﷲ عفیف بھی دلائل تو اس کے عدمِ جواز کے پیش کرتے ہیں۔ لیکن دبے لفظوں میں ضرورت کی بناء پر جوازِ عمل بھی تسلیم کرتے ہیں۔ ۴۔ ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ نے اپنے تعاقب کی چوتھی قسط میں ’’خدشات‘‘ کے زیرِ عنوان خلفائے راشدین کی سنت کی بحث کا جس انداز سے سنت ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے معارض ہونا ذکر کیا ہے۔ نامناسب ہے۔
Flag Counter