Maktaba Wahhabi

228 - 829
ہے یا نہیں؟ اگر یہ اذان سحری یا تہجد کی ہے جس طرح کہ موصوفین کا زعم ہے تو پھر اس اختلاف کا کیا مطلب؟ دراصل اس اذان کا تعلق بھی من و جہ فجر سے ہے، اس لئے ائمہ میں ا ختلاف پیدا ہوگیا۔ پھر ان حضرات کا یہ دعویٰ کہ صبح صادق کی اذان زیادہ تر حضرت بلال رضی اللہ عنہ ہی دیا کرتے تھے۔ بلادلیل اور نصوصِ صحیحہ کے خلاف ہے۔مفتی صحیفہ نے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی متعارض روایات میں بعض احتمالی توجیہات کا سہارا لے کر یہ نتیجہ اَخذ کیا ہے اور حافظ موصوف کی فیصلہ کن بات جو ان کے مخالف تھی، اس کو چھوڑ دیا ہے۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں: (( ثم فی اٰخرالامر اخر ابن امّ مکتوم لضعفہ ووکل بہ من یراعی الفجر واستقر اذان بلال بلیل)) [1] ’’پھر آخری امر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن امّ مکتوم کی اذان کو ان کے ضعف کی وجہ سے موخر کردیا اور ان کے ساتھ نگہبان مقرر کردیا جو ان کو طلوعِ فجر سے آگاہ کرے اور بلال رضی اللہ عنہ کی اذان مستقل طور پر رات کو مقرر ہوگئی۔‘‘ عون المعبود (۱؍۲۱۰)میں ہے: (( فإن الثابت عن بلال انہ کان فی اٰخر ایام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یوذن بلیل ثم یوذن بعدہ ابن امّ مکتوم مع الفجر)) [2] یعنی ’’حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے یہ بات ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے اخیر میں وہ رات کو اذان دے دیتے تھے پھر ان کے بعد ابن امّ مکتوم فجر کی اذان دیا کرتے تھے۔‘‘ نبی صلی الله علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( إِنَّ بِلاَلًا یُؤَذِّنُ بِلَیْلٍ، فَکُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّی یُنَادِیَ ابْنُ أُمِّ مَکْتُومٍ)) [3] ’’بلال رات کو اذان دیتا ہے پس تم کھاتے پیتے رہویہاں تک کہ ابن اُمّ مکتوم اذان دے۔ ’’ واضح ہو کہ شرع میں کھانے پینے کے لئے کسی اذان کا کوئی وجود نہیں، بلالی اذان میں کھانے پینے کا لفظ محض اشتباہ دور کرنے کے لئے استعمال ہوا ہے کہ یہ اذان کھانے پینے سے روکنے والی نہیں بلکہ وہ ابن امّ مکتوم کی اذان ہے۔ اس پر بیہقی نے یوں باب قائم کیا ہے: ((باب اذان الاعمی إذا اذن بصیر قبلہ او اخبرہ لوقت))
Flag Counter