Maktaba Wahhabi

75 - 76
کانبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح اگر کم سنی میں ہوا ہو تب بھی یہ سورۃ طلاق کی مذکورہ آیت کی تفسیر نہیں ہوسکتااسکی تفصیل میں وہ لکھتے ہیں کہ: ﴿ سورۃ طلاق مدینہ میں اتری جبکہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کادخول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر اس آیت کے نزول سے قبل ہی ہوچکاتھااوریہ توسب ہی جانتے ہیں کہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا نکاح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہجرت سے قبل بی بی خدیجہ رضی اللہ عنہ کے انتقال کے بعد ہوچکاتھا،اب آیت واللائی لم یحضن کے متعلق یہ کہناکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاصدیقہ رضی اللہ عنہا سے نکاح اس آیت کی عملی تفسیرہے اللہ اوراسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پرجھوٹ بولنے کے مترادف ہے اوراس نکاح کواسلام کاایک اصول اورقرآن سے ماخوذکہنااوراس پرزوردیناکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کے اترنے کے بعد صدیقہ رضي الله عنها سے نکاح فرماکرعملی تفسیر بیان کی کہناقرآن کے ساتھ اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مذاق ہے،شائد لکھنے والے کے دماغ میں حضرت زینب ام المومینن کانکاح گردش کررہاہوجو حقیقتاً قرآنی آیت کی عملی تفسیر ہے ﴾ ہمیں قرشی صاحب کی اس بات سے اتفاق ہے کہ بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا کا نکاح مکہ میں ہوچکاتھاجبکہ سورۃ طلاق کی زیربحث آیت مدنی ہے مگر یہ کوئی ضروری نہیں کہ نبی کاہرفعل اورعمل قرآن کاحکم اترنے کے بعد واقع ہوبلکہ کبھی ایسابھی ہوتاہے کہ اللہ تعالیٰ وحی جلی یعنی قرآن کے نازل کرنے سے قبل وحی خفی کے ذریعہ کسی کام کاحکم اپنے نبی کودیتاہے اسکے بعد قرآن کے ذریعہ اسکی تائید و توثیق فرمادیتاہے مثلاً صلح حدیبیہ کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار مکہ کے ساتھ جو معاہدہ کیااسکا حکم قرآن میں اس وقت تک نازل نہیں ہوا تھالیکن بعدمیں قرآن کی آیات نازل ہوگئیں جن سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فعل کامنجانب اللہ ہوناثابت ہوگیااس لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمل کو قرآن کی تفسیر کہاجائے گااسی طرح بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کاحکم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوخواب کی صورت میں دے دیاگیاتھاجس کاتذکرہ صحیح بخاری کی حدیث کے حوالے سے قرشی صاحب نے بھی کیا ہے اسکے بعد قرآن کی آیت نے اس نکاح کی توثیق کردی یعنی نبی کے کسی بھی قول ،فعل اورعمل کی مشروعیت شان نزول کی محتاج نہیں ہوتی البتہ اس سلسلہ میں قرشی صاحب کامولاناعطاء اللہ کی جانب یہ بات منسوب
Flag Counter