Maktaba Wahhabi

74 - 76
سن لڑکی کے نکاح اوررخصتی کے دونوں کے قائل تھے یعنیامام بخاری رحمہ اللہ نے بھی سورۃ طلاق کی اس آیت کی وہی تفسیر سمجھی تھی جو مولاناعطاء اللہ صاحب نے حصہ اول میں مختلف تفاسیر کے حوالے سے بیان کی ہے اب اگر ہم فرض کرلیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے واقعی اس باب کے تحت کوئی حدیث نقل نہیں کی تب بھی قرآن کی آیت نے تواعلان کردیاکہ نابالغ لڑکی کانکاح اوررخصتی جائز ہے اس صورت میں قرشی صاحب اپنے اس دعویٰ کاکیا کریں گے کہ امت مسلمہ کی چودہ سال کی تاریخ میں کبھی کسی نے کم سن لڑکی سے شادی نہیں کی اورکیا ایسی بات کہنے کامطلب یہ نہیں ہوگاکہ قرآن کی اس آیت پرامت مسلمہ میں سے کسی نے کبھی عمل ہی نہیں کیاپھر قرشی صاحب نے سنت کے بارے میں بڑے جذباتی ہوکر کہاتھاکہ’’ سنت پرعمل کرنامسلمان کے لئے ضروری ہے اورسنت اسی وقت پہچانی جائے گی جب اس پرعمل کیاجائیگا‘‘ہماراسوال ہے کہ کیاقرآن پرعمل کرناضروری نہیں جو قرشی صاحب قرآن کی مخالفت پرڈٹ گئے ہیں؟باقی رہایہ اعتراض کہ صحیح بخاری امام بخاری رحمہ اللہ کی وفات کے وقت اپنی حالیہ ترتیب پرنہیں تھی اس لئے بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا کے نکاح والی حدیث کوامام بخاری رحمہ اللہ کے بعد والے ساتھیوں اورشاگردوں نے اپنی صواب دیدپر اس باب کے تحت جوڑدیاجوآج تک صحیح بخاری میں موجودہی غلط قرارپائے گادرحقیقت قرشی صاحب کایہ اعتراض بلادلیل اورمحض انکے اپنے ذہن کی پیداوار ہے کیونکہ ایساکہیں نہیں لکھا کہ بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا کے نکاح والی حدیث پرباب امام بخاری رحمہ اللہ نے نہیں بلکہ بعد والے لوگوں نے قائم کیاہے یعنی اگر ایساہوتاتوصحیح بخاری کے شارحین مثلاً حافظ ابن حجریاعلامہ عینی وغیرہ میں سے کوئی نہ کوئی اسے ضرور ذکر کرتا لیکن ایسانہیں ہواجو اس بات کی دلیل ہے کہ بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا کے نکاح پرقائم ہونے والا باب : ﴿ باب انکاح الرجل ولدہ الصغار لقول اللّٰه تعالیٰ ’’واللائی لم یحضن‘‘ فجعل عدتھا ثلاثۃ اشھر قبل البلوغ﴾ یعنی’’باب اس بات پر کہ آدمی اپنی نابالغ لڑکی کانکاح کرسکتاہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے کہ [واللائی لم یحضن]یعنی نابالغ لڑکی کی عدت تین ماہ ہے‘‘امام بخاری رحمہ اللہ کاقائم کردہ باب ہے یاکم ازکم امام بخاری کی منشاء کے عین مطابق ضرورہے ،علاوہ ازیں ایک اعتراض قرشی صاحب کویہ بھی ہے کہ بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا
Flag Counter