Maktaba Wahhabi

70 - 76
کے لئے بلوغت کی شرط پراستدلال کرتے ہیں: ﴿ وَابْتَلُوا الْيَتَامَى حَتَّى إِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ ﴾ یعنی ’’یتیموں کی آزمائش کرلوجب وہ شادی کی عمر کوپہنچیں‘‘کے تحت لکھاہے کہ یہ حکم یتیموں کے لئے خاص ہے یعنی اگر اس آیت سے اگر کوئی یہ استدلال کرے کہ شادی کیلئے بلوغت شرط ہے تو اس صورت میں اس کااطلاق صرف یتیموں پرہوگاکیونکہ یتیم کاولی یتیم بچے یابچی کے معاملے میں اتنامخلص نہیں ہوسکتا جتنا ایک باپ اپنی سگی اولاد کے سلسلہ میں ہوتاہے یعنی یتیم کاولی اسکے معاملات کااس وقت تک نگران ہے جب تک وہ بالغ نہیں ہوجاتااوربالغ ہونے کے بعد وہ یتیم نہیں رہتا اس لئے خود مختار ہوجاتاہے جبکہ باپ اپنی کم سن اولاد کے معاملات کاصرف نگران نہیں بلکہ مختاربھی ہے اوربلوغت کے بعدبھی اسکے کچھ حقوق و فرائض ہیں غالباً یہی وجہ ہے امام بخاری نے کم سنی کی عمرمیں شادی کی اجازت پرصحیح بخاری میں جو باب قائم کیاہے اسکیعنوان میں ولی کالفظ نہیں لائے بلکہ یوں کہاکہ’’باب اس بات پر کہ باپ اپنی نابالغ لڑکی کانکاح کرسکتاہے‘‘یعنی اگرسورۃ النساء کی آیت میں نکاح کامعنی جماع کے بجائے عقد یاخطبہ نکاح کیاجائے تب بھی یہ آیت بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا کے کم سنی میں واقع ہونے والے نکاح کے خلاف نہیں پڑتی کیونکہ ان کانکاح ان کے والد ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے منعقد کیاتھااوراس سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پرعمل کئے جانے کی ایک تاریخی شہادت سطور بالامیں پیش کی جاچکی ہے اوراسی سے ملتی جلتی دوسری شہاد ت امام سرخسی نے بھی المبسوط میں پیش کی ہے اسکے الفاظ یہ ہیں: ﴿ وکان لأبی مطیع البلخی ابنۃ صارت جدۃ وھی بنت تسعۃ عشرۃ سنۃ حتی قال فضحتنا ھذہ الجاریۃ ومن مشایخنا من قدر ذلک بسبع سنین لقولہ صلی اللّٰه علیہ وسلم مروھم بالصلاۃ اذا بلغوا سبعاً والأمرحقیقۃ للوجوب وذلک بعد البلوغ ﴾ یعنی ’’ابومطیع بلخی کی ایک لڑکی نانی بن گئی جبکہ وہ صرف انیس(۱۹) سال کی تھی اورانھوں نے کہاکہ اس لڑکی نے ہم کوشرمندہ کردیااورہمارے بعض مشائخ نے کہاکہ عورت کے نکاح کی عمر سات سال ہے کیونکہ حدیث میں ہے کہ اولاد کوسات سال کی عمر میں نماز کاحکم کرواورحکم وجوب
Flag Counter