Maktaba Wahhabi

69 - 76
مسلمان کے لئے ضروری ہے اورسنت اسی وقت پہچانی جائے گی جب اس پر عمل کیاجائے گا﴾ نابالغ لڑکی کی شادی کے ضمن میں قرشی صاحب نے یہ مؤقف اختیارکیاتھاکہ چونکہ مسلمانوں کی تاریخ میں ہمیں کوئی واقعہ ایسانہیں ملتاجس میں کسی لڑکی کی شاد ی نوسال کی عمرمیں ہوئی ہوچناچہ یہ ممکن ہی نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا سے شادی اس وقت کی ہوجب بی بی کی عمر صرف نوسال تھی ورنہ امت مسلمہ اس سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پرضرور عمل کرتی اب چونکہ امت نے عمل نہیں کیااس لئے یہ عمل سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہوناناممکن ہے اس پرمولاناصاحب نے یہ جواب دیاتھاکہ کسی بھی سنت پراگر امت نے عمل نہ کیاہوتو اس سے یہ لازم نہیں آتاکہ وہ عمل سنت ہوہی نہیں یعنی خواہ امت میں سے کسی کاعمل کرناثابت ہویانہ ہوسنت بہر حال سنت ہی رہے گی ا س بیان سے غالباً قرشی صاحب نے یہ سمجھاکہ واقعی چودہ سو سال کی اسلامی تاریخ میں کسی نے بھی نوسالہ لڑکی سے شادی نہیں کی اس لئے انھوں نے سنت کی اہمیت پرایک اچھاخاصہ نوٹ لکھ ڈالا جس کاایک اقتباس ہم نے سطوربالامیں پیش کیاہے اس کاجواب دینے سے قبل مناسب معلوم ہوتاہے کہ ہم نوسالہ لڑکی کے نکاح کاایک تاریخی حوالہ قارئین کی خدمت میں پیش کردیں تاکہ منکرین حدیث کی یہ خوش فہمی بھی دور ہوجائے کہ ایسا اسلامی تاریخ میں کبھی نہیں ہوااورقرشی صاحب پرحجت بھی پوری ہوجائے ،علامہ ابن الجوزی لکھتے ہیں کہ: ﴿ عن عبادبن عباد المھلی قال ادرکت فیا امرأۃ صارت جدۃ وھی بنت ثمانی عشرۃ سنۃ ولدت لتسع سنین ابنۃ فولدت ابنتھا لتسع سنین ابنۃ ٭التحقیق لابن الجوزی ص۳۲۷ ج۸، سنن دارقطنی ص۳۲۳ج۳ ﴾ یعنی ’’عبادبن عباد المھلی سے روایت ہے کہ ایک لڑکی اٹھارہ سال کی عمر میں نانی بن گئی یہ اس طرح ہواکہ اس نے نوسال کی عمرمیں ایک لڑکی کوجنم دیا اوراسکی لڑکی نے بھی شادی کے بعد نوسال کی عمر میں ہی ایک لڑکی کو جنم دیا‘‘اسی طرح امام سرخسی نے ’’المبسوط ‘‘میں باب النکاحصغیر وصغیرہ کے تحت کم سن لڑکی کی شادی کے مسئلہ پرایک طویل بحث کی ہے اورسورۃ النساء کی مندرجہ ذیل آیت جس سے منکرین حدیث شادی
Flag Counter