Maktaba Wahhabi

64 - 76
الگ الگ راویوں کے ذریعہ بیان کرنے سے کچھ فرق نہیں پڑتا ﴾ قرشی صاحب نے ہشام والی روایت کویہ کہہ کرردکیاتھاکہ اس کے راوی صرف کوفی ہیں اورتمام راویوں نے یہ روایت ہشام سے لی ہے نیزہشام بن عروہ کے علاوہ کوئی دوسراراوی اس حدیث کوبیان نہیں کرتااورہشام بن عروہ کاحافظہ عراق جانے کے بعد خراب ہوگیاتھااسلئے یہ روایت قابل قبول نہیں ہے قرشی صاحب کے اس اعتراض کے جواب میں یہی روایت غیر کوفی راویوں کے حوالے سے بیان کی گئی اوریہی روایت ایسی اسناد سے بھی بیان کی گئی جن میں ہشام بن عروہ بھی شامل نہیں تھے اسکے باوجود قرشی صاحب کا اپنے مؤقف پرڈٹے رہنااورڈھٹائی کیساتھ یہ کہناکہ’’ ایک ہی قول الگ الگ راویوں کے ذریعہ بیان کرنے سے کچھ فرق نہیں پڑتا‘‘نری جہالت کے سوا کچھ نہیں کیونکہ محدثین کی اصطلاح میں محض رواۃ کے بدلنے سیحدیث بھی بدل جاتی ہے یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی ایک ہی قول یافعل کاتذکرہ جب بھی کسی نئی سندکے ساتھ سامنے آتا ہے توایک علیحدہ اورمستقل حدیث کی حیثیت اختیار کرتاہے یہاں عجیب بات یہ ہے کہ قرشی صاحب نے اپنے بیان میں بقلم خود دیگر اسناد سے وارد ہونے والی روایات کے بارے میں لکھاہے کہ’’کسی راوی کے آگے پیچھے ہونے سے الگ الگ(حدیثوں کی )صورت میں سامنے آرہاہے ‘‘ یعنی حدیث تسلیم کیا ہے اسکے بعداگلی سطر میں حدیث ماننے سے انکاربھی کیاہے ہمارے نزدیک اس قسم کے اعتراض کوا عتراض کے بجائے دماغ کا فتورہی کہاجاسکتاہے اوراسی نوعیت کاایک اعتراض قرشی صاحب نے یہ بھی کیا ہے کہ: ﴿ ہشام بن عروہ امام مالک رحمہ اللہ کے استادوں میں تھے اسکے باوجود امام مالک نے اپنے استاد کے قول ’’عمر عائشہ رضی اللہ عنہا ‘‘‘ کواپنی کتاب میں جگہ دینامناسب ہی نہیں سمجھااس کی وجہ کیایہ نہیں کہ اس قول کی صحت کاامام مالک رحمہ اللہ کو یقین نہیں تھا﴾ یہاں قرشی صاحب کے اس اعتراض کی حیثیت محض ڈوبتے کوتنکے کاسہار اسے زیادہ نہیں کیونکہ یہ کوئی لازمی اورضروری نہیں کہ ایک محدث اپنے استاد سے سنی ہوئی ہر حدیث کواپنی کتاب میں درج کرے گااوریہ بھی کوئی ضروری نہیں کہ ایک استاد کی تمام کی تمام احادیث لازمی طور پر اسکے شاگرد تک پہنچیں گی نیز معلوم ہوناچاہیے کہ صرف ہشام بن عروہ رحمہ اللہ ہی امام مالک رحمہ اللہ کے استاد نہیں تھے بلکہ امام مالک رحمہ اللہ کے اساتذہ میں کئی
Flag Counter