Maktaba Wahhabi

63 - 76
عائشة رضي اللّٰه عنها قالت تزوجنی النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم فاتتنی امی فادخلتنی الدار فلم یرعنی الا رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم ضحی ٭صحیح بخاری کتاب النکاح ﴾ یہاں اصل عبار ت میں ایساکوئی لفظ نہیں جس کاترجمہ ڈر یاخوف کیاجاسکے دراصلیہاں علامہ وحید الزماں نے تعجب کے لفظکے بجائے ڈرترجمہ لکھ دیاہے جو مترجم علامہ وحیدالزماں کی ایک خطاء ہے لیکن قرشی صاحب نے صحیح بخاری کی اصل عبارت کوپڑھ کرخود ترجمہ کرنے کی زحمت کئے بغیر صحیح بخاری کی مرفوع حدیث کو ہشام بن عروہ کاقول قراردے کربلاسوچے سمجھے رد کردیاہے حالانکہ تراجم میں اس قسم کی غلطیاں ہوجاناکوئی انوکھی بات نہیں ہے مثلاًقرآن میں متعدد مقامات پرلفظ تقویٰ استعمال ہوتاہے جس کااردو ترجمہ اکثر و بیشتر ڈر کردیا جاتاہے حالانکہ یہ اس لفظ کاصحیح ترجمہ نہیں ہے اسی طرح کی ایک مثال ہم قرشی صاحب کی عبارت سے بھی پیش کرتے ہیں جس میں وہ صحابہ کرام کی احادیث کی جانب احتیاط کوبیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ: ﴿ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایالوگوان کی احادیث کوقبول کرو جو عمرفاروق رضي الله عنها کے زمانے کی ہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرکے احادیث کے بیان کرنے میں عمر رضي الله عنها نے لوگوں کوڈرایادھمکایاتھا٭بحوالہ تذکرۃ الحفاظ ﴾ قرشی صاحب کی نقل کردہ اس عبارت سے شیعہ اوراحادیث کاانکار کرنے والوں کے لئے اہل سنت کی احادیث کوردکرنے قوی دلیل فراہم ہوسکتی ہے اوروہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ جتنی بھی احادیث ہیں یہ معاذاللہ عمر فاروق رضي الله عنها نے ڈرادھمکاکر زور زبردستی سے لکھوائی ہیں پس کسی عبار ت کامحض ترجمہ دیکھ کراسکے بارے میں کوئی رائے قائم کرناعلمیت نہیں بلکہ جہالت کی دلیل ہواکرتی ہے۔ اسی رسالے کے حصہ اول میں ہشام بن عروہ کی روایت کردہ حدیث پرقرشی صاحب کی تنقید کاجواب دیتے ہوئے مولانا عطاء اللہ صاحب نے متعدد دیگر روایوں کی احادیث نقل کی ہیں جو ہشام کی حدیث کی تائید کرتی ہیں اسکاجواب دیتے ہوئے قرشی صاحب نے لکھاہے کہ: ﴿ یہاں ایک ہی قول ذرا الفاظ کے الٹ پھیریازیادتی اورکمی یاکسی راوی کے آگے پیچھے ہونے کی وجہ سے الگ الگ (حدیثوں کی )صورت میں سامنے آرہا ہے پھر اس قول کو
Flag Counter