Maktaba Wahhabi

51 - 76
سی احادیث نقل کیں ہیں اور کچھ اسی نوعیت کابیان جناب قرشی صاحب کی طرف سے بھی آیاہے وہ فرماتے ہیں کہ: ﴿ میری زندگی اہل حدیث حضرات کے بیچ گذری ہے جنکااوڑھنابچھوناہی حدیث نبوی کے مطابق تھااورمیں سمجھتاہوں کہ میں نے احادیث نبوی کے سمجھنے میں غلطی نہیں کی ہاں بشریت کے تقاضے سے کہیں بھول چوک توہوسکتی ہے مگر انکار حدیث جیسافعل میرے لئے محال ہے اسلئے براہ کرم بغیر تحقیق منکرحدیث کافتویٰ دینے سے گریز کریں﴾ قرشی صاحب کے اس بیان کودیکھتے ہوئے ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ یہاں اہل حدیث اور منکر حدیث کے درمیان فرق کوواضح کردیں اورمنکرین حدیث کی شناختی علامات کوبیان کردیں تاکہ ہروہ شخص جو کسی بھی سبب انکار حدیث کے جراثیم سے متاثر ہواہے اپنامحاسبہ خود کرلے اوراس گمراہی سے تائب ہوجائے اورعوام الناس منکرین حدیث کوانکی شناختی علامات کے ذریعہ پہچان کران خوبصورت جال میں گرفتارہونے سے محفوظ رہ سکیں اس سلسلہ میں سب سے پہلی علامت تو وہی ہے جس کاکچھ تذکرہ سطوربالامیں بھی ہم نے کیا ہے یعنی ناموس قرآن یاناموس رسالت کی دہائی دے کرکسی صحیح حدیث کوتسلیم کرنے سے انکارکرنامعلوم ہوناچاہیے کہ اصول حدیث کے مطابق کوئی بھی حدیث جوقرآن کے خلاف یا نبی کی شان کے خلاف ہوقابل رد ہے اوریہ اصول منکرین حدیث کابنایاہوانہیں بلکہ محدثین کابنایاہواہے اورمحدثین کازہدو تقویٰ اورعلمیت ایک مسلمہ حقیقت ہے یعنی آج جوصحیح احادیث منکرینحدیث کوقرآن یاشان رسالت کے منافی نظر آتی ہیں محدثین کی تحقیق میں ان حدیث کاصحیح قرار پانااس بات کی دلیل ہے کہ وہ احادیث قرآن یاشان رسالت کے منافی نہیں بلکہ منکرین حدیث کے فہم وفراست سے بعیدہونے کے باعث انہیں اس طرح نظر آتی ہیں ورنہ احادیث کی تخریج اورتشریح کاکام جو تقریباًہرصدی میں جاری رہاہے اسمیں ان احادیث کی نشاندہی ضرور کردی جاتی مثلاًصحیح بخاری کی اب تک بہت سی شرحیں لکھی جاچکی ہیں جن میں حافظ ابن حجر عسقلانی کی شرح فتح الباری ،علامہ عینی کی شرح عمدہ القاری ،شرح صحیح بخاری للقسطلانی اورشرح صحیح بخاری للکرمانی خاص طورپرقابل ذکرہیں لیکن ان شارحین میں سے کسی نے بھی کبھی نہیں کہاکہ صحیح بخاری کی فلاں حدیث قرآن کے
Flag Counter