Maktaba Wahhabi

49 - 76
طرح ایک دوسری آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے کہ: ﴿ وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلِّمَهُ اللّٰه إِلَّا وَحْيًا أَوْ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولًا فَيُوحِيَ بِإِذْنِهِ مَا يَشَاءُ إِنَّهُ عَلِيٌّ حَكِيمٌ ٭ سورۃ الشوریٰ ۵۱﴾ یعنی ’’کسی بشرکے لئے ممکن نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے بات کرے سوائے اسکے کہ اسکی طرف القاء کردے کوئی بات یاپردے کی پیچھے سے کلام کرے یااپنا فرشتہ بھیجے اسکی طرف جواس پروحی کرے وہ جو اللہ چاہے بے شک اللہ زبردست حکمت والاہے‘‘تمام مفسرین کے نزدیک یہاں وحی کی تین قسمیں بیان ہوئی ہیں جن میں سے اول قسم عام جو کسی بھی نبی یاغیر نبی پرخواب یابیداری کی حالت میں واقع ہوسکتی ہے جیسے کہ موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کی طرف یاشہد کی مکھی کی طرف وحی کاذکرقرآن میں موجود ہے جبکہ دوسری اورتیسری قسم صرف انبیاء کے ساتھ خاص ہے جیساکہ موسیٰ علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ نے کوہ طورپرپردے کی پیچھے سے بات کی اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے معراج کے موقع پرسدرۃالمنتہی پرہوئی اوروحی کی تیسری قسم وہ ہے جس پر پورا کاپورا قرآن مشتمل ہے یعنی جبرائیل کاغیرمحسوس طریقہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب پرقرآ ن کووحی کرنالیکن چونکہ منکرین حدیث قرآن کے علاوہ کسی اوروحی کونہیں مانتے ورنہ انہیں احادیث کوبھی وحی کی قسم سے تسلیم کرناپڑے گااس لئے پرویز صاحب نے اس آیت کے آخری ٹکڑے کایہ مفہوم بیان کیاہے کہ’’اس آیت میں ’’رسول‘‘سے مراد فرشتہ نہیں بلکہ نبی اوررسول ہے جواپنی امت کووحی سے حاصل ہونے والے پیغام کو منتقل کرتاہے ‘‘حالانکہ عربی لغت کے اعتبارسے لفظ ’’وحی ‘‘کااطلاق اس بات پرہوتاہے جوچپکے سے اورغیر محسوس طریقہ پرکسی کوپہنچادی جائے جبکہ نبی اپنی امت کوجوپیغام پہنچاتاہے وہ چپکے سے نہیں بلکہ ببانگ دہل ہوتاہے اسلئے وحی کے لفظ کوتبلیغ پر چسپاں کرناعربی لغت کے اعتبار سے قطعی طورپرغلط ہے اسی طرح قرآن میں متعدد مقامات پرآیاہے کہ: ﴿ يُضِلُّ مَنْ يَشَاءُ وَيَهْدِي مَنْ يَشَاءُ ﴾ یعنی ’’ہم جسے چاہتے ہیں گمراہ کرتے ہیں اورجسے چاہتے ہیں ہدایت دیتے ہیں‘‘لیکن پرویز صاحب چونکہ تقدیر کے قائل نہیں اس لئے اسکایہ مفہوم بیان کرتے ہیں کہ اللہ اسے گمراہ کرتاہے جو گمراہی
Flag Counter