Maktaba Wahhabi

48 - 76
کیونکہ ان دونوں مجموعوں کی صحت پرامت اسلامیہ کاقدیم زمانے سے اجماع رہاہے چناچہ اسلام اوراہل اسلام کے دشمنوں نے یہ منصوبہ بنایاکہ کسی بھی طرح اگر ان متفق علیہ احادیث پراہل اسلام کااعتماد مجروح کردیاجائے توبقیہ احادیث کے بارے میں کچھ کہنے یاکرنے کی ضرورت باقی ہی نہیں رہ جائیگی اوراسکے بعد قرآن کی من مانی تفسیر کرکے دین اسلام کاحلیہ ہی بگاڑدیاجائے گاکیونکہ قرآن کی من مانی تفسیر کرنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ یہی احادیث ہیں اورجب یہ رکاوٹ باقی ہی نہیں رہے گی تومحض عربی لغات اورفلسفہ کے ذریعہ قرآن کی ایسی تفاسیرکی جائیں گی جیسی اپنے مطلب کی تفاسیرشیعہ اوردیگر باطنی فرقوں نے کرلی ہیں جو محدثین کرام سے محض انکے اہل بیت میں سے نہ ہونے کے باعث متنفرہیں اورقرآن کی تفسیر کااستحقاق اپنے خود ساختہ اماموں کوتفویض کرتے ہیں جنہیں اہل بیت سمجھتے ہیں لیکن منکرین حدیث کامعاملہ اس سے بھی دو ہاتھ آگے ہے کیونکہ انکارحدیث کایہ فتنہ صرف اہل عجم کاہی خاصہ ہے اسلئے انکے امام بھی عجمی ہیں جیساکہ غلام احمد پرویز صاحب جنہوں نے قرآن کی تفسیر کرتے ہوئے حدیث کوچھوڑ ا توچھوڑا عربی لغت کوبھی بہت پیچھے چھوڑ دیاہے مثلاًقرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے کہ : ﴿ مَا نَنْسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنْسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِنْهَا أَوْ مِثْلِهَا أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللّٰه عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ٭ سورۃ البقرۃ ۱۰۶﴾ یعنی ’’ہم منسوخ کرتے ہیں کوئی آیت یابھلادیتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوکوئی آیت تولے آتے ہیں اسکی جگہ اس سے بہتریااس جیسی کوئی آیت کیاتم جانتے نہیں کہ اللہ ہرچیز پرقادرہے ‘‘لیکن پرویز صاحب چونکہ قرآن میں نسخ کوتسلیم نہیں کرتے اس لئے انھوں نے اس آیت کایہمفہوم بیان کیاہے کہ’’اس سے مراد اہل کتاب ہیں کہ جب انھوں نے اپنی کتابوں میں تحریف کردی اوراس کابیشتر حصہ فراموش کردیاتواللہ تعالیٰ نے اس قرآن کے ذریعہ انکی کتابوں کومنسوخ کردیاجیسے بائیبل کی جگہ قرآن لے آیا‘‘اس آیت کریمہ کایہ مفہوم جہاں ایک جانب تمام مفسرین کے بیان کردہ مفہوم کے قطعی خلاف ہے وہیں دوسری جانب عربی لغت وگرامر کے اعتبار سے بھی اسکایہ مفہوم لیناناممکن ہے کیونکہ’’ننسخ‘‘ کامطلب ہے ہم منسوخ کرتے ہیں اور’’ننسھا‘‘ کا مطلب ہے ہم بھلادیتے ہیں یعنی منسوخ ہونااوربھلادینے کافاعل یہاں اہل کتاب نہیں بلکہ اللہ ہے،اسی
Flag Counter