Maktaba Wahhabi

31 - 76
مؤلف رسالہ نے زیرعنوان ’’احادیث بخاری سے عمرکاتعین ‘‘ کے تحت لکھاہے کہ : ﴿ آیئے ہم بخاری سے ایسی صحیح حدیث پیش کرتے ہیں جو ہشام کے کوفی روایوں کے برعکس ثقہ راویوں سے منقول ہے جس کاتسلسل یوں ہے کہ لیث بن سعد نے عقیل سے انھوں نے ابن شہاب سے انھوں نے عروہ بن زبیر سے اورانھوں نے صدیقہ کائنات سے یعنی اس حدیث میں سرے سے ہشام کانام ہی نہیں ہے ،یہ طویل حدیث ہے جسمیں صدیقہ رضی اللہ عنہا اپنے بچپن سے لیکرہجرت حبشہ اورہجرت مدینہ تک کے حالات بتارہی ہیں جس سے ان کے عمر کے درجات کی صاف طورپرتصدیق ہوجاتی ہے،ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب مجھکو عقل آئی تومیں نے اپنے والدین کواسلام پرپایااورکوئی دن ایسانہیں گذرتا تھاکہ صبح شام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھرتشریف نہ لاتے ہوں ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا اس میں اپنی عمر کاذکر فرمارہی ہیں کہ جس میں ایک بچہ اتنا عقل مند ہوجائے کہ وہ دین واسلام کوسمجھ سکے اوراس کو اس بات کاعلم ہوکہ اس کے گھر میں کون آرہاہے اوریہ واقعہ بعثت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت کاتھا﴾ یہاں قرشی صاحب کابی بی عائشہ رضی اللہ عنہا کے مذکورہ قول’’جب مجھے عقل آئی ‘‘کونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت پرمحمول کرناسوائے جہالت کبریٰ کے کچھ نہیں معلوم ہوناچاہیے کہ بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا کے اس قول کوائمہ اسلام میں سے کسی نے بھی اول بعثت پرمحمول نہیں کیااوربی بی عائشہ رضی اللہ عنہا کے ابوبکرصدیق رضي الله عنها کی حبشہ کی طرف ہجرت کے واقعہ کو بیان کرنے کاہرگزیہ مطلب نہیں کہ وہ اس واقعہ کے وقت بڑی تھیں،اصول حدیث کاعلم رکھنے والے یہ بات جانتے ہیں کہ صغار صحابہ اپنی پیدائش سے پہلے کے بھی واقعات بیان کرتے تھے یعنی وہ دوسرے بڑے صحابہ سے یہ باتین سن کربیان کرتے تھے اورکسی صحابی کے حوالے کے بغیر براہ راست بیان کیاکرتے تھے اوراصول حدیث کے مطابق اسمیں کوئی مضائقہ اورکوئی حرج نہیں ہے کیونکہ صحابہ کے عدول ہونے پر اجماع ہے اس لئے ایک صحابی دوسرے صحابی سے کوئی حدیث سن کربغیر اس صحابی کانام لئے ہوئے بیان کرسکتاہے اسکی ایک مثال بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا کے واقعہ اسراء ومعراج کوبیان کرنے سے دی جاسکتی ہے،حافظ ابن
Flag Counter