Maktaba Wahhabi

28 - 76
نے خودکہاہے کہ اسکی بیوی عمر میں اس سے تیرہ سال بڑی تھی پس لازمی طورپر’’نو سال ‘‘کالفظ اس روایت میں کسی دوسرے روای کی غلطی کانتیجہ ہے جس کاتعین حافظ ذہبی رحمہ اللہ جیساوسیع علم رکھنے والابھی نہیں کرسکا ،ہشام کا قول اسکی بیوی کی عمر کے بارے میں تہذیب الکمال صفحہ۵۶۴ جلد۸ میں ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ: ﴿ قال ہشام بن عروہ کانت اکبر منی بثلاث عشرۃ سنۃ ﴾ یعنی’’ہشام نے کہاکہ اسکی بیوی اس سے تیرہ سال بڑی تھی‘‘اس وضاحت کے بعد بھی یہ کہناکہ ہشام پرنوسال بھوت بن کر سوارتھے جہالت اورکم علمی کے سوا کچھ نہیں اوردرحقیقت یہ علماء سلف اورمحدثین کے خلاف دل میں بھری ہوئی عداوت اورکینہ کا اظہارہے ۔ پس معلوم ہواکہ ہشام بن عروہ ایک ثقہ اورمعتبر روای ہے اوریہ بات بھی محدثین کی تصریحات میں گذر چکی ہے کہ ہشام پر وہ وقت کبھی آیاہی نہیں کہ وہ اپنا ذہنی توازن کھوچکاہواوراسکو اگلی پچھلی کوئی بات یاد ہی نہ رہی ہواس لئے اگرکوئی یہ کہے کہ ہشام نے اپنی بیوی کے بارے میں کبھی یہ بات کہی اورکبھی وہ بات کہی ہوگی قطعاً حماقت پر مبنی بے بنیاد اعتراض ہوگالیکن مؤلف رسالہ نے ہشام کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ کے حوالے سے یہاں تک لکھاہے کہ ’’آخری عمرمیں ہشام سٹھیاگئے تھے‘‘حالانکہ ہشام بن عروہ کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ کے یہ الفاظ ہم نے کہیں نہیں پائے اورخود مؤلف رسالہ نے بھی اس کاکوئی حوالہ نقل نہیں کیا ہے اس لئے معلوم یہی ہوتاہے کہ قرشی صاحب نے حافظ ذہبی رحمہ اللہ کی تالیفات سے جو الٹا سیدھا مطلب اخذ کیاہے اسکا لب لباب اپنے الفاظ میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ پر تھوپ دیاہے اورمؤلف رسالہ نے ہشام کی روایات کے سلسلہ میں لکھاہے کہ : ﴿ ان کی سندات جمع کرنے کے بعد ایک نئے عقیدہ (غالباً انکی مراد عقدہ ہے )کا انکشاف ہوتاہے کہ کچھ راوی تواسے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کاقول قرار دیتے ہیں اورکچھ اسے حضرت عروہ کاقول بتاتے ہیں﴾ یہاں قرشی صاحب جس چیز کوروایت میں اختلاف کے طورپر پیش کرناچاہتے ہیں اسکی کوئی علمی حیثیت نہیں کیونکہ اصول حدیث کے علم میں یہ کوئی ایسااختلاف نہیں جس کی بنیاد پرکسی حدیث کوضعیف قرار
Flag Counter