Maktaba Wahhabi

22 - 76
یرضاہ نقم علیم حدیثہ لاہل العراق٭میزان الاعتدال ص۳۰۱ ج۴ ﴾ یعنی ’’اپنی مخبوط الحواسی چھوڑ ائمہ اثبات و ثقات کوضعیف و مختلط روایوں کے ساتھ ملاناچھوڑدے کیونکہ ہشام شیخ الاسلام ہے اوراسی طرح ہشا م کے متعلق عبدالرحمن بن خراش کی جرح کابھی کوئی اعتبار نہیں جس میں اس نے کہاکہ امام مالک رحمہ اللہ نے ہشام کی عراقی حدیثوں کو غیر مقبول کہاہے ‘‘یہ ہے اسماء الرجال کے امام حافظ ذہبی رحمہ اللہ کا کلام ہشام بن عروہ کے بارے میں اس میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ہشام بن عروہ کو حجۃ الامام اورشیخ الاسلام کہاہے اور ہشام بن عروہ کے متعلق ابن قطان اورابن خراش نے تنقید کرتے ہوئے جوکچھ کہااسے بھی رد کردیاہے اوراسکو غیر مقبول جرح کہاہے اورہشام بن عروہ پر تنقیدکرنے والوں کو سخت تنبیہ کی ہے لیکن قرشی صاحب نیصرف حافظ ذہبی رحمہ اللہ کے کلام کو غلط اندازہی میں پیش نہیں کیابلکہ صحیح بخاری کے روایوں کی ثقاہت پر بھی حملہ کیاہے قرشی صاحب فرماتے ہیں کہ : ﴿ صحیح بخاری کے راوی اگر بخاری کے نزدیک ثقہ ہیں تو وہ دوسرے محدثین کے نزدیک ثقہ نہیں﴾ ہمارے خیال میں یہ وہی مخبوط الحواسی ہے جس کے چھوڑنے کا مشورہ حافظ ذہبی نے دیاہے یقیناً یہ کلام کسی اہل علم کا نہیں ہوسکتاکیونکہ بخاری و مسلم کی صحت اوران کے درجہ کاقرآن کے بعد ہوناصرف ان کی اپنی رائے میں نہیں بلکہ یہ درجہ ان کو انکی وفات کے بعد ائمہ اسلام اورفقہاء کرام نے دیاہے اوران کتب کویہ درجہ ان کے رواۃ کے ثقاہت کے باعث ہی ملاہے یعنی بخاری ومسلم کی احادیث کے راوی قوت حفظ و اتقان و ثقاہت و مضبوطی عقل میں باقی تمام کتب احادیث کے رواۃ سے اعلیٰ درجہ رکھتے ہیں اس لئے قرشی صاحب کی بخاری کے راویوں پر تنقید محض ہوا میں تیر چلانے سے زیادہ کچھ نہیں ہے اوراپنی کم علمی کی وجہ سے ہشام پر جو جرح حافظ ذہبی رحمہ اللہ کے حوالے سے نقل اسکی حیثیت کیاہے وہ بھی سامنے آگئی ہے اسی طرح مؤلف رسالہ نے ہشام بن عروہ پر برستے ہوئے مذید لکھاہے کہ : ﴿امام ابن حجر نے اپنی کتاب تہذیب میں یعقوب بن ابی شیبہ کابیان نقل کیاہے کہ ہشام کی عراقی روایات کو اہل مدینہ نے برا تصورکیاہے ،مدینہ میں رہتے ہوئے ہشام صرف
Flag Counter