ہے۔"[1] مگر اس دن کسی عید کا منانا یا غم کا اظہار کرنا جائز نہیں۔کیونکہ یہ دونوں کام خلاف سنت ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں صرف روزے کا آیا ہے اور یہ کہ اس سے پہلے ایک دن یا اس کے بعد ایک دن کا مزید روزہ رکھ لیں تاکہ یہودیوں کی مخالفت ہو جائے کیونکہ وہ صرف اس ایک دن کا روزہ رکھتے تھے۔(محمد بن صالح عثیمین)
سوال:بعض مقامات پر رواج ہے کہ جب کسی کے ہاں بچے کی ولادت ہوتی ہے تو اسے ہدیے دیے جاتے ہیں اور ان میں سے بعض اوقات سونے کی چیزیں بھی ہوتی ہیں،تو کیا میں بچوں کے ان ہدایا میں کوئی تصرف کر سکتا ہوں؟
جواب:اگر تصرف سے مراد کوئی فائدہ اٹھانا ہے،تو اس کے جائز ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔لیکن اگر یہ مراد ہو کہ یہ سونا اس لڑکے کو پہنایا جائے تو ہم یہ مسئلہ اپنی کتاب آداب الزفاف میں واضح کر چکے ہیں۔[2] (ناصر الدین الالبانی)
سوال:ہمارے ہاں ہر سال اکیس مارچ کو خاص دن منایا جاتا ہے جسے "عید الام" کہتے ہیں اور اس میں سب لوگ شریک ہوتے ہیں۔تو کیا یہ حلال ہے یا حرام؟
جواب:وہ تمام ایام اور عیدیں جو شرعی عیدوں کے خلاف ہوں،دین میں یہ نیا کام ہیں اور بدعت ہیں۔سلف صالح (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم) کے دور میں ان کا کوئی وجود نہ تھا۔عین ممکن ہے یہ غیر مسلموں سے درآمد شدہ ہوں۔تو اس طرح یہ اللہ کے دشمنوں کے ساتھ مشابہت بھی ہو گی۔
شرعی عیدیں مسلمانوں کے ہاں معروف ہیں کہ وہ عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ ہی ہیں،اور تیسری ہفت روزہ عید (جمعہ کا دن) ہے۔ان تین کے علاوہ سب نئی ایجاد شدہ ہیں۔لہذا یہ ان کے ایجاد کرنے والوں ہی پر پلٹ دیے جانے کے لائق ہیں،اللہ کی شریعت میں باطل ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:"جس نے ہمارے اس معاملہ دین میں کوئی نئی بات نکالی جس کے متعلق ہمارا کوئی امر نہ ہو تو وہ مردود ہے۔"[3] لہذا یہ عید،عید الام میں شرعی عید کا سا کوئی کام کرنا،فرح و سرور کا اظہار کرنا یا ہدیے دینا جائز نہیں ہے۔
ہر مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے دین سے معزز بنے،اس پر فخر کرے اور اللہ و رسول کی مقرر کردہ
|