ہوتی ہے اور فائدہ ہوتا ہے،تو آپ نے فرمایا کہ جو اس میں جائے باپردہ ہو کر جائے۔"[1] (محمد بن عبدالمقصود)
سوال:کیا اگر کوئی نابینا مرد لڑکیوں کو پڑھائے تو جائز ہے؟ کیا حدیث "تم تو اندھی نہیں ہو" کے پیش نظر یہ ناجائز نہیں ہو گا؟
جواب:سب سے افضل اور لائق تر بات یہی ہے کہ عورتوں کو عورتیں ہی پڑھائیں۔یہ صورت ہی فتنے سے بچاؤ کے لیے سب سے بڑھ کر ہے۔تاہم ضرورت ہو تو جائز بھی ہے کہ کوئی نابینا آدمی لڑکیوں کو درس دے،یا اگر وہ بینا ہو تو درمیان میں پردہ حائل ہو یا بند شیشہ ہو۔
اور حدیث "تم تو اندھی نہیں ہو"[2] یہ مردوں کا عورتوں کو پڑھانے کے لیے منع کی دلیل نہیں بن سکتی جبکہ لازمی تحفظ کا اہتمام کر لیا گیا ہو۔یہ حدیث اس مسئلہ میں ہے کہ آیا عورت نابینا مرد کو دیکھ سکتی ہے یا نہیں۔اور اس حدیث کی سند وغیرہ میں اہل علم کو کلام ہے[3] جس کی تفصیل نیل الاوطار شوکانی وغیرہ میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔واللہ اعلم۔(صالح بن فوزان)
سوال:اگر میں عورتوں کے لیے نماز کی جگہ میں کسی بچی کو عربی زبان پڑھاؤں تو کیا یہ جائز ہے؟
جواب:ہاں،جائز ہے۔(محمد بن عبدالمقصود)
سوال:طالبات کا اپنی معلمہ کے احترام میں کھڑے ہونے کا کیا حکم ہے؟
جواب:طالبات کا اپنی معلمہ کے احترام میں کھڑا ہونا یا لڑکوں کا اپنے استاد کے احترام میں کھڑا ہونا درست نہیں،یہ نہیں ہونا چاہیے ۔اس کا کم از کم فقہی حکم "کراہت شدیدہ" ہے یعنی انتہائی ناپسندیدہ ہے۔سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر صحابہ رضی اللہ عنہم کو اور کسی سے محبت نہ تھی مگر:
(ولم يكونوا يقومون له إذا دخل عليهم لما يعلمون من كراهته لذلك)
"آپ جب ان کے پاس تشریف لاتے تو یہ لوگ آپ کے لیے کھڑے نہیں ہوا کرتے تھے،کیونکہ
|