بطور علامت نظر آئے گا۔یہ تبرج ہے اور اسباب فتنہ میں ہے لہذا جائز نہیں۔[1] (محمد بن صالح عثیمین)
سوال:موقع بموقع عورتوں کے بالوں کے طرح طرح کے اسٹائل نظر آتے ہیں،اور پھر دوسری عورتیں بھی ان کی نقالی شروع کر دیتی ہیں۔کہیں تو یہ بالکل مردوں کی طرح ہوتے ہیں یا طرح طرح سے رنگے ہوئے ہوتے ہیں،یا انہیں بکھیر بکھیر کر رکھتی ہیں،اور ان اسٹائلوں کے لیے وہ بیوٹی پارلروں میں جاتی ہیں اور اس کے عوض میں وہ سو سو یا ہزار ہزار بلکہ اس سے بھی زیادہ دے آتی ہیں؟
جواب:"بال" عورت کا حسن و جمال ہیں اور اس سے مطلوب ہے کہ وہ انہیں بنائے سنوارے اور جائز حد تک ان کو خوبصورت بنائے،اور اس سے یہ بھی مطالبہ ہے کہ وہ اپنے بال بڑھائے مگر غیر محرموں سے چھپائے بھی۔بالخصوص نماز میں حکم ہے کہ:
"لَا يَقْبَلُ اللّٰهُ صَلَاةَ حَائِضٍ إِلَّا بِخِمَارٍ"
"اللہ تعالیٰ کسی جواب عورت کی نماز اوڑھنی کے بغیر قبول نہیں کرتا ہے۔"[2]
مگر انہیں کاٹنا یا مردوں کی حجامت کے مشابہ بنانا یا ان کی کیفیت کا بگاڑ دینا یا بلا ضرورت رنگنا،یہ باتیں جائز نہیں ہیں۔ہاں اگر بال سفید ہو جائیں تو ضرور رنگنا چاہیے۔ مگر کالے نہ کیے جائیں۔سفید بالوں کو رنگنا شرعا مطلوب ہے۔مگر ان کے بنانے سنوارنے میں حد سے مبالغہ کرنا اور بیوٹی پارلروں میں جانا کسی طرح درست نہیں
|