Maktaba Wahhabi

689 - 868
آ جاتے تھے)۔" [1] امام نووی بیان کرتے ہیں کہ قاضی عیاض نے کہا کہ معروف ہے کہ عرب کی عورتیں لمبے بال رکھتی تھیں،اور شاید ازواج نبی نے آپ علیہ السلام کی وفات کے بعد یہ عمل اپنایا تھا کیونکہ وہ زیب و زینت چھوڑ چکی تھیں،اور انہیں بال لمبے کرنے کی کوئی ضرورت بھی نہ تھی اور یہ بھی چاہتی تھیں کہ بالوں کے بارے میں انہیں کچھ زیادہ محنت نہ کرنی پڑے۔[2] قاضی عیاض اور دیگر ائمہ نے یہی لکھا ہے کہ ان کا یہ عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کا ہے،نہ کہ آپ کی زندگی کا۔اور ان سیدات کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ایسے عمل کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔تو اس میں دلیل ہے کہ عورت اپنے سر کے بال ہلکے کروا سکتی ہے۔مذکورہ بالا روایت (ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے رضاعی بھائی والی) میں قاضی عیاض رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے سیدہ کا یہ عمل سر دھونا اور جسم کا اوپر کا حصہ دیکھا تھا جس کا کسی محرم کے لیے دیکھنا حلال ہے۔[3] (محمد بن ابراہیم) سوال:عورت کے لیے اپنی چوٹی پر جوڑا بنانا کیسا ہے جسے کہ لوگ کعکعہ سے تعبیر کرتے ہیں؟ جواب:عین سر کے اوپر بالوں کا اس طرح سے جمع کر لینا اہل علم کے نزدیک اس نہی یا تحذیر میں شامل ہے جس کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اس معروف حدیث (صِنْفَانِ مِنْ أَهْلِ النَّارِ لَمْ أَرَهُمَا بَعْدُ...) میں ذکر کیا ہے،اور اس میں ہے کہ "عورتیں ہوں گی کپڑے پہنے ہوئے مگر ننگی،مائل ہونے والی اور مائل کرنے والی،ان کے سر بختی اونٹوں کے جھکے کوہانوں کی مانند ہوں گے۔"[4] یہ حکم تو عین سر کے اوپر جوڑا بنانے کا ہے۔البتہ گردن پر ان کا جمع کر لینا،تو اس میں کوئی حرج نہیں۔لیکن اگر عورت نے بازار وغیرہ جانا ہے تو اگر اسی حال میں جائے تو یہ وہ تبرج ہو گا (یعنی اظہار زینت ہو گا) جو ممنوع ہے۔کیونکہ باوجود عبایہ (یا برقع) پہننے کے یہ پیچھے اسے
Flag Counter