اور اعشیٰ (عبداللہ بن اعور مازنی) نے اپنی ایک ملاقات میں آپ علیہ السلام کو اپنے کچھ اشعار سنائے تو ان میں ایک مصرع یہ تھا:
"وهن شر غالب لمن غلب"
"اور یہ عورتیں جس پر غالب آ جائیں بہت بری ہوتی ہیں۔" [1]
اور آپ یہ مصرع بار بار دہرانے لگے:(وهن شر غالب لمن غلب)
الغرض ان حقائق سے واضح ہوتا ہے کہ مردوں پر واجب ہے کہ اپنی عورتوں کی نگہبانی کا فریضہ سر انجام دیں،اور یہ جو اپنی حدود سے تجاوز کر رہی ہیں ان کے ہاتھ پکڑیں اور انہیں ان کے کپڑوں کے نت نئے فیشن سے منع کریں،اللہ کی حدود کے معاملے میں ان کے ساتھ مداہنت نہ کریں،اور یہ ذمہ داریاں مردوں پر شرعی لحاظ سے واجب ہیں۔اللہ عزوجل کا فرمان ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلَائِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا يَعْصُونَ اللّٰهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ﴿٦﴾(التحریم:66؍6)
"اے ایمان والو!اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو آگ سے بچا لو،جس کا ایندھن لوگ ہوں گے اور پتھر،اور اس پر ایسے فرشتے مقرر ہیں جو بڑے تند خو اور سخت ہیں،اللہ جو انہیں حکم دے دے اس کی وہ قطعا نافرمانی نہیں کرتے،بلکہ وہی کرتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہے۔"
علمائے امت نے صراحت سے لکھا ہے کہ عورت کے ولی امر اور سرپرست پر واجب ہے کہ اسے حرام سے بچائے۔وہ لباس کا مطالبہ ہو یا کچھ اور۔اگر وہ باز نہ آئے تو (ولی پر) واجب ہے کہ اسے تادیبی سزا (تعزیر) دے۔اور حدیث میں ہے کہ:
"كُلُّكُمْ رَاعٍ،وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ"
"تم میں سے ہر شخص مسئول اور ذمہ دار ہے،اور ہر شخص اپنے زیر تولیت (رعیت) کے متعلق پوچھا جائے گا۔"[2]
الغرض اس معاشرتی فتنے پر بند باندھنا بہت ہی ضروری معاملہ ہے۔اولا تو حکام پر واجب ہے اور ساتھ ہی
|