قیامت کے دن کلام نہیں فرمائے گا،نہ ان کی طرف دیکھے گا،نہ ہی انہیں پاک کرے گا،اور ان کے لیے عذاب الیم ہے۔ابوذر رضی اللہ عنہ نے پوچھا:اے اللہ کے رسول!وہ کون لوگ ہیں؟ بہت ہی گھاٹے اور خسارے میں رہے وہ لوگ!آپ علیہ السلام نے دوسری اور تیسری بار بھی یہی بات دہرائی۔تو ابوذر رضی اللہ علیہ نے بھی پوچھا:کون ہیں وہ لوگ اے اللہ کے رسول!بہت ہی گھاٹے اور خسارے میں رہے وہ لوگ!آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اپنی ازا ر لٹکانے والا،احسان کر کے جتلانے والا اور جھوٹی قسم سے اپنا مال بیچنے والا۔"[1]
اس حدیث کی شرح میں امام شوکانی رحمہ اللہ سے تسامح ہوا ہے،کہتے ہیں کہ اس حدیث میں مطلق "المسبل" کا ذکر آیا ہے،اور حدیث ابن عمر و ابی ہریرہ میں مقید آیا ہے۔لہذ مطلق کو مقید پر محمول کیا جائے گا۔مگر بات ایسے نہیں ہے بلکہ " المسبل" عام معرف باللام ہے،جیسے کہ خود شوکانی رحمہ اللہ نے کئی ایک مقامات پر ذکر کیا ہے۔اور حدیث ' من جر ثوبه خيلاء او بطرا ' یہ اس عام کے اجزا ہیں،اور یہاں عام کے افراد میں سے ایک کا ذکر کیا گیا ہے،مثلا آپ علیہ السلام دو قبروں کے پاس سے گزرے تو فرمایا:"ان دونوں کو عذاب دیا جا رہا ہے،اور کسی بڑی بات پر عذاب نہیں ہو رہا،لیکن ہاں بڑی بھی ہے۔ان میں سے ایک تو اپنے پیشاب سے طہارت نہیں کیا کرتا تھا،اور دوسرا لوگوں میں چغل خوری کرتا تھا۔"[2]
ایک اور مثال:۔۔حضرت بسرہ بنت صفوان رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جس نے اپنی شرمگاہ کو چھوا،وہ نماز نہ پڑھے حتی کہ وضو کر لے۔"[3]
اور امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور حنابلہ نے اس سے استدلال کیا ہے کہ "جو اپنی شرمگاہ کو ہاتھ لگا بیٹھا ہو وہ وضو کرے۔" اس پر امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے کہا جیسے کہ منتقی الاخبار کی شرح دلیل الاوصاف میں ہے کہ یہ ارشاد عام ہے کہ "آدمی اپنی شرمگاہ کو ہاتھ لگائے یا کسی دوسرے کی شرمگاہ کو۔" یہ حکم دونوں کو شامل ہے۔حقیقت یہ ہے کہ ان دونوں روایتوں کا مخرج ایک ہے،اس لیے دوسری روایت پہلی سے مقید ہونی چاہیے ۔
|