سوال:ایک عورت بدکاری کے نتیجے میں حاملہ ہو گئی ہے۔اب اس کا ولی اسی زانی سے اس کا نکار کر دینا چاہتا ہے جبکہ ابھی وضع حمل نہیں ہوا۔اس کی دلیل یہ ہے کہ اس حمل کی کوئی حرمت و کراہت نہیں ہے۔تو کیا یہ جائز ہے کہ زانی اس عورت سے نکاح کر لے؟
جواب:اس آدمی کو جائز نہیں ہے کہ اس عورت سے نکاح کر سکے حتیٰ کہ وہ توبہ کرے اور وضع حمل سے اس کی عدت پوری ہو۔کیونکہ ان دونوں نطفوں میں (بصورت زنا اور بصورت نکاح) نجاست و طہارت اور طیب اور خبیث ہونے کا فرق ہے۔اور ان کا صنفی ملاپ بھی حلال اور حرام کے اعتبار سے مختلف ہے۔[1] (مجلس افتاء)
سوال:ایک لڑکی کا سوال ہے،کہتی ہے کہ میری عمر بائیس سال ہے،میرا ایک نوجوان سے تعارف ہو گیا اور پھر ہمارے درمیان وہ کچھ ہو گیا جو میں زبان پر نہیں لا سکتی۔الغرض حمل ہوا جو پچاس دن کے بعد ضائع کرا دیا گیا،اور پھر میں نے توبہ کی ہے،خالص توبہ جو اللہ ہی جانتا ہے۔جو کچھ ہوا اس پر میں انتہائی نادم اور شرمندہ ہوں اور میرا پختہ عہد ہے کہ آئندہ کوئی ایسی حرکت نہیں کروں گی۔میرا آپ سے سوال یہ ہے کہ یہ نوجوان مجھ سے چاہتا
|