﴿فَإِن لَّمْ تَكُونُوا دَخَلْتُم بِهِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ﴾(النساء:4؍23)
"۔۔اور جن عورتوں سے تم مباشرت کر چکے ہو،ان کی لڑکیاں جنہیں تم پرورش کرتے ہو (وہ بھی تم پر حرام ہیں) ہاں اگر ان کے ساتھ تم نے مباشرت نہ کی ہو تو ( ان کی لڑکیوں کے ساتھ نکاح کر لینے میں) تم پر کچھ گناہ نہیں ہے۔"
یہ آیت کریمہ دلیل ہے کہ حرمت تبھی آتی ہے کہ جب مباشرت اور جماع ہوا ہو۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت کے مطابق اس آیت میں " دَخَلْتُم " سے مراد "جماع" ہے۔اگر کسی حلال عورت کے ساتھ اس کی شرمگاہ کے علاوہ مباشرت ہوئی ہو تو مثلا منکوحہ یا مملوکہ لونڈی ہو تو اس سے اس کی بیٹی اس پر حرام نہیں ہو گی۔
خلاصۃ القول یہ ہے کہ تمہیں رخصت ہے کہ اس عورت کی کسی بیٹی کے ساتھ بعد از عدت نکاح کر سکتے ہو،بشرطیکہ آپ نے طلاق سے پہلے اس کے ساتھ اسے پکڑنے اور بوسہ لینے کی حد تک قربت کی ہو،کیونکہ یہ وہ دخول نہیں جس کی وجہ سے اس کی بیٹی کا آپ کے لیے حرام ہونا لازم آتا ہے۔(محمد بن ابراہیم)
سوال:جب ایک آدمی کے پاس ایک بیوی ہو اور پھر اسے طلاق دے دے اور اس کی عدت کے ایام ہی میں اس کی رضاعی بہن سے شادی کر لے،تو کیا یہ نکاح صحیح ہو گا؟
جواب:جب یہ ثابت شدہ ہو کہ اس کی رضاعت دو سال کی عمر کے اندر اندر ہوئی تھی،اور پانچ رضعات (پانچ بار) تھی،تو یہ نکاح صحیح نہیں ہے۔کتاب اللہ کے عموم کا یہی تقاضا ہے:
حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ وَبَنَاتُكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ وَعَمَّاتُكُمْ وَخَالَاتُكُمْ۔۔۔وَأَن تَجْمَعُوا بَيْنَ الْأُخْتَيْنِ (النساء:4؍23)
"تم پر تمہاری مائیں اور بیٹیاں اور بہنیں اور پھوپھیاں اور خالائیں ۔۔اور دو بہنوں کا اکٹھا کرنا بھی حرام ہے۔"
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ "رضاعت سے بھی وہ رشتے حرام ہو جاتے ہیں جو نسب سے حرام ہیں۔"[1] جب یہ مطلقہ اپنی عدت مکمل کر لے،تب اگر یہ اس کی رضاعی بہن سے نکاح کرنا چاہے تو پیغام دے سکتا ہے۔[2] (محمد بن ابراہیم)
|