آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (افطار کا وقت ہو جانے پر) روزہ کھولنے میں جلدی کرنے کی ترغیب دی ہے اور فرمایا ہے کہ "لوگ جب تک افطار کرنے میں جلدی کرتے رہیں گے خیر پر رہیں گے۔" [1] بہرحال آپ نے صرف سحری تک وصال کرنے کی رخصت دی ہے،اور جب صحابہ نے آپ علیہ السلام سے کہا کہ اے اللہ کے رسول!آپ وصال کرتے ہیں؟ تو آپ نے فرمایا:"میں تمہاری طرح سے نہیں ہوں۔"[2] (محمد بن صالح عثیمین)
سوال:آپ علیہ السلام کا فرمان ہے کہ "سحری کھایا کرو،بلاشبہ سحری میں برکت ہے۔" [3] سحری میں برکت ہے۔" کا کیا مفہوم ہے؟
جواب:سحری کرنے میں دو طرح کی برکتیں ہیں۔ایک شرعی،دوسری بدنی۔شرعی برکت یہ ہے کہ انسان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان پر عمل کر کے آپ کی اقتدا کرتا ہے،اور بدنی برکت یہ ہے کہ انسان کو غذا مل جاتی ہے اور روزہ پورا کرنے میں آسانی رہتی ہے۔(محمد بن صالح عثیمین)
سوال:روزے کی حالت میں بھول کر کھا پی لینے کا کیا حکم ہے؟ اور جو آدمی کسی روزے دار کو کھاتا پیتا دیکھے تو کیا اس پر واجب ہے کہ اسے اس کا روزہ یاد دلائے؟
جواب:جو شخص روزے کی حالت میں بھول کر کھا پی لے،اس کا روزہ بالکل صحیح ہے،اور اگر اس اثناء میں اسے یاد آ جائے تو اس پر واجب ہے کہ فورا اس سے رک جائے اور منہ کا لقمہ یا گھونٹ فورا پھینک دے۔بھولے سے کھا پی لینے سے روزے پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔اس کے صحیح ہونے کی دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ فرمان ہے جو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:
"جو بھول گیا اور وہ روزے سے ہوا اور کھا یا پی لیا،تو اسے چاہیے کہ اپنا روزہ پورا کرے،بلاشبہ اللہ نے ہی سے کھلایا پلایا ہے۔" [4]
|