جواب:(2) وہ اعمال خیر جن کا شریعت مطہرہ میں بیان آیا ہے میت کو ہدیہ کرنا جائز ہے۔مثلا صدقہ،دعا،قرض کی ادائیگی اور حج و عمرہ۔جب آدمی فوت ہو گیا ہو یا زندہ بھی ہو مگر بڑھاپے کی وجہ سے (حج و عمرہ) نہ کر سکتا ہو یا ایسا بیمار ہو کہ اس کی صحت مندی کی امید نہ ہو تو اس کی طرف سے حج و عمرہ ہو سکتا ہے،کیونکہ بہت سی احادیث میں ان کا ثبوت ملتا ہے،اور قرآن کریم میں عام مسلمانوں کے لیے دعا کا ثبوت موجود ہے خواہ وہ زندہ ہوں یا فوت ہو چکے ہوں،مثلا اللہ کا یہ فرمان:
﴿ وَالَّذِينَ جَاءُوا مِن بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِّلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ ﴾(الحشر:59؍10)
"اور جو ان کے بعد آئے ہیں دعا کرتے ہیں:اے رب ہمارے!ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لانے میں سبقت لے چکے ہیں،اور ہمارے دلوں میں ایمان داروں کے متعلق کوئی کینہ (و حسد) نہ رہنے دے،بلاشبہ تو بے انتہا شفقت کرنے والا مہربان ہے۔"
اور نبی علیہ السلام کا فرمان ہے:"جب ابن آدم فوت ہو جاتا ہے تو سوائے تین چیزوں کے اس کے تمام اعمال منقطع ہو جاتے ہیں:صدقہ جاریہ،علم نافع اور نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرتی ہو۔" [1]
اور یہ بھی ثابت ہے کہ ایک آدمی آیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول!میری ماں اچانک فوت ہو گئی ہے اور وصیت نہیں کر سکی،اور مجھے یقین ہے کہ اگر وہ بولتی تو ضرور صدقہ کرتی،تو کیا اگر میں اس کی طرف سے صدقہ کروں تو اسے اجر ملے گا؟"[2]
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے پوچھا:اے اللہ کے رسول!کیا میرے لیے اپنے ماں باپ کے لیے ان کے فوت ہو جانے کے بعد،حسن سلوک کا کوئی ذریعہ باقی ہے،کہ میں ان کے لیے کوئی نیکی کروں؟ فرمایا:ہاں!ان کے لیے دعا کرنا،استغفار کرنا،ان کے جانے کے بعد ان کے عہدہ (وعدہ) کو پورا کرنا،ان کے دوستوں کی عزت کرنا،اور ان عزیزوں سے صلہ رحمی کرنا کہ ماں باپ کے رشتہ کے بغیر ان کے ساتھ حسن سلوک
|