Maktaba Wahhabi

310 - 868
تمہاری ہمت ہو۔" [1] مذکورہ بالا حدیث میں یہی ہے کہ عورتوں کے لیے قبرستانوں میں جنازوں کے پیچھے جانا حرام ہے مگر ان کا نماز جنازہ میں شریک ہونا بالکل جائز ہے،جیسے کہ مردوں کے لیے حکم ہے۔واللہ ولی التوفیق۔(عبدالعزیز بن باز) سوال:اگر کوئی خاتون فوت ہو جائے،اور اس کے اپنے اقارب نہ ہوں تو کیا دوسرے اجنبی لوگ اسے قبر میں اتار سکتے ہیں؟ جواب:اس میں کوئی حرج نہیں ہے،خواہ اس کے اپنے اولیاء موجود بھی ہوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک لخت جگر کو ان کے غیر محرم لوگوں ہی نے قبر میں اتارا تھا حالانکہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (والد) موجود تھے۔[2] (عبدالعزیز بن باز) سوال:کیا میت کو زندہ آدمی کی طرف سے کوئی نیک کام ہدیہ کیا جا سکتا ہے؟ جواب:(1) ہاں زندوں کی طرف سے میت کو وہ اعمال پہنچتے ہیں،جن کا شریعت میں بیان آیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب ابن آدم فوت ہو جاتا ہے،تو اس کے سب اعمال منقطع ہو جاتے ہیں،سوائے تین کے: صدقہ جاریہ،یا کوئی علم جس سے فائدہ اٹھایا جاتا ہو،یا نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرتی ہو۔"[3] علاوہ ازیں اور بھی احادیث ہیں جن میں ہے کہ صدقہ،دعا،حج،عمرہ،اور وہ علم جو مرنے والا اپنے پیچھے چھوڑ گیا ہو وہ اسے پہنچتا ہے۔لیکن نماز،قراءت قرآن،طواف اور نفلی روزوں کا میت کے لیے ہدیہ کرنا مجھے اس کی کوئی اصل معلوم نہیں ہے۔اس لیے ان کا کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:"جو کوئی ایسا عمل کرے جس کا ہم نے حکم نہ دیا ہو،تو وہ مردود ہے۔" [4] (عبدالعزیز بن باز)
Flag Counter