مقیم اس کے پیچھے چار پڑھتا ہے۔[1] (محمد بن عبدالمقصود)
سوال:نماز میں بسم اللہ اونچی آواز سے پڑھنے کا کیا حکم ہے؟
جواب:نماز میں بسم اللہ اونچی آواز سے پڑھنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے،بلکہ اس کے برعکس یہ ثابت ہے کہ آپ یہ خاموشی سے پڑھا کرتے تھے۔اور اس مسئلہ میں یہ بات ہی زیادہ صحیح ہے۔تاہم امام کے لیے اس قدر جائز ہے کہ بسم اللہ یا دوسری قراءت میں جو نیچی آواز سے پڑھا جاتا ہے اگر کسی وقت کچھ اونچی آواز سے پڑھ لے تاکہ اس کے پیچھے مقتدیوں کو بھی تعلیم و تنبیہ ہو تو جائز ہے۔مگر اسے ہمیشہ اونچی آواز سے پڑھنا اپنا معمول بنا لے تو یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ صحیح سنت کے خلاف ہو گا۔(محمد ناصر الدین الالبانی )
سوال:کیا عورت کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنی نماز میں جہری قراءت کر لے اور آوازیں اس قدر بلند کرے کہ خود سن سکے جب کہ نماز بھی وہ ہو جس میں قراءت سری ہوتی ہے،یا سنتیں اور نوافل وغیرہ؟ اور مقصد یہ ہو کہ قرآن کریم ترتیل سے پڑھ سکے،اور اس طرح خشوع خوب ہوتا ہے،تلاوت بھولتی نہیں ہے،جبکہ قریب میں کوئی اجنبی مرد یا عورتیں بھی نہیں ہوتے؟
جواب:رات کی نماز میں،خواہ فرض ہوں یا نوافل،قراءت اونچی آواز سے کرنا مستحب ہے،بشرطیکہ کوئی اجنبی مرد اس کی آواز نہ سنتا ہو جس کے لیے اس کی آواز فتنے کا باعث بن سکتی ہو۔اگر جگہ ایسی امن و اطمینان والی ہو تو رات کی نماز میں وہ قراءت جہری کر سکتی ہے۔لیکن اگر ساتھ والوں کو الجھن ہوتی ہو تو اسے خاموشی سے پڑھنا چاہیے ۔
اور دن کی نماز میں اسے قراءت خاموشی سے کرنی چاہیے ۔کیونکہ دن کی نمازیں سب سری ہیں۔آواز بلند کرے بھی تو اس قدر کہ خود سن سکے،اور بس۔دن کی نمازوں میں جہری قراءت خلاف سنت ہونے کے باعث غیر مستحب ہے۔(صالح فوزان)
|