قوم کے پاس آتے اور انہیں وہی نماز پڑھایا کرتے تھے۔[1] یہ دارقطنی میں بھی ہے اور اس کی سند صحیح ہے۔حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کی یہ نماز نفل اور مقتدی لوگوں کی فرض ہوا کرتی تھی۔اور امام شافعی رحمہ اللہ کا یہی مذہب ہے،اور اہل ظاہر بھی کہتے ہیں کہ نفل پڑھنے والا فرض پڑھنے والوں کی امامت کرائے تو یہ صحیح ہے۔مگر جمہور علماء اس سے منع کرتے ہیں۔ان کی دلیل یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ:
(إنما جُعِلَ الإمامُ لِيُؤتَمَّ بهِ،فلا تختلِفوا عليهِ)
"امام بنایا ہی اس لیے جاتا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے،سو اس سے اختلاف نہ کیا کرو۔" [2]
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں ہمارے زیر بحث مسئلہ کی کوئی دلیل نہیں ہے۔بلکہ اس میں وہ مقامات بیان فرمائے گئے ہیں کہ ان میں مقتدی کو اپنے امام کی پیروی کرنی چاہیے ۔چنانچہ اس حدیث کے اگلے الفاظ ہیں:
(فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا،وَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا،وَإِذَا قَالَ:سَمِعَ اللّٰهُ لِمَنْ حَمِدَهُ،فَقُولُوا:رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ،وَإِذَا سَجَدَ،فَاسْجُدُوا،وَإِذَا صَلَّى قَاعِدًا،فَصَلُّوا قُعُودًا أَجْمَعُونَ)
"امام جب اللہ اکبر کہے تب تم اللہ اکبر کہو،جب وہ رکوع کرے تب تم رکوع کرو،اور جب وہ سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو ربنا ولک الحمد کہا کرو۔اور جب وہ سجدہ کرے تو تم سجدہ کرو۔اور جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھا کرے تو تم بھی بیٹھ کر نماز پڑھا کرو۔"[3]
اس حدیث میں علاوہ ازیں اور بھی کئی باتیں ہیں۔الغرض اس میں حکم یہ ہے کہ مقتدی کو اپنے امام کی کامل پیروی کرنی چاہیے جو صرف ظاہری اعمال میں ہے۔اور اس کی دلیل یہ ہے کہ علماء کا اتفاق ہے کہ فرض پڑھنے والے کے پیچھے اگر کوئی نفل پڑھنا چاہے تو پڑھ سکتا ہے۔اسی طرح مسافر امام کے پیچھے کوئی مقیم نماز پڑھے تو درست ہے۔حالانکہ ان دونوں کی رکعات میں اختلاف ہوتا ہے۔مسافر قصر کرتے ہوئے دو رکعت پڑھتا ہے اور
|