Maktaba Wahhabi

293 - 868
کسی رکعت میں قراءت فاتحہ بھول گیا ہو تو اسے چاہیے کہ انتظار کرے حتیٰ کہ جب سلام پھیر لے تو یہ کھڑا ہو کر اپنی یہ رکعت دہرائے اور آخر میں دو سجدے کرے۔ اور بعض اوقات ایسا ہو سکتا ہے کہ امام انتہائی تیزی سے قراءت کرتا ہو اور مقتدی فاتحہ نہ پڑھ سکے۔اور اگر مقتدی اطمینان سے اور ٹھہر ٹھہر کر نماز پڑھ رہا ہو تو اسے چاہیے کہ فاتحہ پڑھے،خواہ امام ایک دو ارکان میں اس سے آگے بھی بڑھ جائے،تو مقتدی کو چاہیے کہ اپنے ارکان کو خفیف کر کے امام سے مل جائے۔(محمد بن عبدالمقصود) سوال:کچھ لوگ ایسی مسجدوں میں نمازیں پڑھتے ہیں جن میں قبریں ہوتی ہیں۔ان پر اعتراض کیا جاتا ہے تو وہ ہمیں مسجد نبوی کے متعلق کہتے ہیں کہ اس میں بھی تو قبریں ہیں؟ جواب:مسجد نبوی،مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ ایسی مساجد ہیں کہ ان کے خاص شرعی احکام قیامت تک کے لیے ثابت ہیں۔مسجد نبوی ان مساجد میں سے ہے جس کی طرف ہمیں شد رحال (سفر کرنے) کا حکم دیا گیا ہے۔[1] اس میں پڑھی جانے والی نماز دوسری مساجد کی نماز کے مقابلے میں ایک ہزار گنا زیادہ فضیلت رکھتی ہے[2] اور یہ احکام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی اسی طرح قائم اور باقی ہیں،لہذا دوسری مساجد کو اس پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔اور یہ بھی معلوم رہنا چاہیے کہ جس شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کو مسجد کا حصہ بنایا،میرا اشارہ ہے ولید بن عبدالملک کی طرف،اس کا عمل کوئی شرعی حجت نہیں ہے۔اور اس پر جناب سعید بن مسیب رحمہ اللہ نے انکار بھی کیا تھا۔اور یہ بھی ممکن ہے کہ دیگر علماء نے اس پر انکار نہ کیا ہو کہ کہیں کوئی اور بڑا فتنہ سر نہ اٹھا لے۔جیسے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا،اور سیدہ رضی اللہ عنہا نے امت کو بتایا کہ کعبۃ اللہ اپنی اصل ابراہیمی بنیادوں پر نہیں ہے بلکہ حجر (حطیم) میں سے چھ ہاتھ کعبہ کا حصہ ہیں۔[3] مگر اس کے باوجود آپ نے کعبہ کو اسی طرح رہنے دیا،کیونکہ لوگ نئے نئے مسلمان ہوئے تھے اور وہ کعبہ میں یہ تبدیلی برداشت نہیں کر سکتے تھے۔اگر تبدیلی کی جاتی تو عین
Flag Counter