ابن قدامہ رحمہ اللہ نے جو یقینی موقف اختیار کرتے ہوئے حضرت عمار رضی اللہ عنہ کی حدیث ذکر کی ہے جو سنن ابی داود میں صحیح سند کے ساتھ مروی ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"ہر سہو کے لیے سلام کے بعد سجدہ ہے۔"[1] لیکن آپ "سلام کے بعد" کے الفاظ سے صرف نظر کیجیے کیونکہ سجدہ سہو کے لیے مقام و موقع کی احادیث کئی طرح سے ہیں،اور راجح یہ ہے کہ ہر حدیث جس موقع کے لیے وارد ہے اسی طرح سے اس پر عمل کیا جائے (یعنی جس بھول پر سجدہ سلام سے پہلے کیا،وہاں پہلے کیا جائے اور جس میں سلام کے بعد،وہاں سلام کے بعد)۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعتیں بھول گئے تو آپ نے سلام کے بعد سجدے کیے۔[2] اور اگر بھول اس طرح کی ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح سے نہ بھولے تھے،تو آپ کو دونوں اختیار ہیں کہ خواہ سلام سے پہلے سجدہ کر لیں یا سلام کے بعد۔لیکن اگر مقتدی اپنے امام کے پیچھے کچھ بھول جائے تو جمہور علماء کہتے ہیں کہ امام اس کا متحمل ہوتا ہے (یعنی مقتدی کو سجدے کرنے کی ضرورت نہیں ہو گی)،لیکن امام صنعانی کے کہنے کے مطابق جیسے کہ انہوں نے بلوغ المرام کی شرح سبل السلام میں لکھا ہے ایک گروہ علماء کا خیال ہے کہ مقتدی کو سہو کی صورت میں سجدے کرنے ہوں گے۔اور یہ امام ابومحمد بن حزم اور کچھ شافعی علماء کا مذہب ہے اور یہ امام نووی نے المجموع میں بھی لکھا ہے۔ان کا استدلال یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھولنے والے کو دو سجدے کرنے کا حکم دیا ہے۔تو بقول ان کے جو یہ کہتا ہے کہ امام مقتدی کی بھول کا متحمل ہو جاتا ہے،اس کی دلیل پیش کرے۔لہذا مقتدی جو کچھ بھول گیا ہو اسے چاہیے کہ امام کا انتظار کرے حتیٰ کہ جب وہ سلام پھیر لے تو یہ مقتدی اپنے سہو کے سجدے کر لے۔
جبکہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا مذہب یہ ہے کہ امام اپنے مقتدی کی بھول کا متحمل ہو جاتا ہے خواہ نماز سری ہو یا جہری،اور ان کی دلیل وہ حدیث ہے جسے عام محدثین نے کمزور کہا ہے،کیونکہ یہ عبداللہ بن شداد رضی اللہ عنہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سند سے مرسل ہے،یعنی:
(مَنْ كَانَ لَهُ إِمَامٌ،فَقِرَاءَةُ الْإِمَامِ لَهُ قِرَاءَةٌ) [3]
"جس کا امام ہو تو امام کی قراءت اس مقتدی کی قراءت ہوتی ہے۔"
مگر جمہور کا مذہب یہ ہے کہ سری نمازوں میں مقتدی پر فرض ہے کہ امام کے پیچھے فاتحہ پڑھے۔اگر مقتدی
|