نماز اور پند و نصیحت سننے کے لیے ہوتی ہے۔لہذا چاہیے کہ عورت باپردہ ہو کر نکلے اور میں چاہوں گا کہ پڑھی لکھی خواتین لغت کی کتابوں میں اس فرمان رسول کا ترجمہ و مفہوم ملاحظہ کریں (وليخرجن تفلات) [1] (چاہیے کہ وہ خوشبو لگائے بغیر نکلیں) لہذا مسلمان عورت کو خوشبو لگا کر اپنے گھر سے باہر نکلنا حرام ہے۔عورتوں کی "طیب" وہی ہے جس میں رنگ ہو۔اور حدیث میں بھی آیا ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جس عورت نے خوشبو کی دُھونی لی ہو وہ ہمارے ساتھ عشاء کی نماز میں حاضر نہ ہو۔"[2] چنانچہ جب عورتوں نے عطر لگا کر مسجدوں میں جانے کا کام شروع کیا تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہہ اٹھیں "اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کا یہ چلن ملاحظہ فرما لیتے جو ہم نے دیکھا ہے تو آپ انہیں مسجدوں میں آنے سے روک دیتے جیسے کہ بنی اسرائیل کی عورتوں کو روک دیا گیا تھا۔"[3] (محمد بن عبدالمقصود)
سوال:اگر آدمی کے ذمے کسی نماز کی قضا دینا باقی ہو تو کیا اس کے لیے قضا شدہ نماز پڑھنا افضل ہے یا نفل؟
جواب:اگر اس کے ذمے کسی واجب کی قضا دینا باقی ہو تو اس کے لیے پہلے واجب کی قضا دینا ہی افضل ہے بجائے اس کے کہ وہ نئے نوافل میں مشغول ہو۔(شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ)
سوال:عورت کی نماز گھر میں افضل ہے یا مسجد حرام میں؟
جواب:مرد ہوں یا عورتیں سب کے لیے نفل نماز اپنے گھر میں ادا کرنا افضل ہے۔کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان میں عموم ہے:
("أَفْضَلَ صَلَاةِ الْمَرْءِ فِي بَيْتِهِ إِلَّا الْمَكْتُوبَةَ")[4]
"فرضوں کے علاوہ آدمی کی فضیلت والی نماز وہی ہے جو وہ اپنے گھر میں ادا کرے۔"
یہی وجہ ہے کہ آپ علیہ السلام نوافل گھر میں پڑھا کرتے تھے،اور آپ کا یہ فرمان بھی ہے کہ:
(صَلاةٌ فِي مَسْجِدِي هَذَا خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ صَلاةٍ فِيمَا سِوَاهُ إِلا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ) [5]
|