جبکہ السعایہ لکشف ما فی شرح الوقایہ(۱/۲/۲۱۳طبع سہیل اکیڈمی لاہور) اورالتعلیق الممجّد (ص:۹۳) میں لکھتے ہیں :
‘’حق بات تو یہ ہے کہ عند الرکوع رفع یدین کے ثبوت میں کوئی شک و شبہ نہیں،قوی اسناد اور صحیح طُرق سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رکوع سے پہلے اور بعد رفع یدین کیا کرتے تھے۔‘‘
( 8) … رفع یدین کی روایات کی کثرت اور تواتر ِ اسنادی و عملی سے متاثر ہو کر ہی کبارعلمائِ احناف میں سے علّامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ نے بھی العرف الشذی(۱/۱۲۴ ) میں اس تواتر کا اعتراف کیا ہے۔[1]
(9) … اسی طرح ہی علّامہ رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ حنفی نے فتاویٰ رشیدیہ میں اعتراف کیا ہے کہ رفع الیدین منسوخ نہیں ہوئی۔[2]
(10) … قاضی ثناء اللہ صاحبرحمہ اللہ پانی پتی کی کتاب ’’مَا لَا بُدَّ مِنْہُ‘‘بڑی معروف ہے،اس میں انھوں نے بھی رفع یدین کے غیر منسوخ ہونے کی صاف تصریح فرمادی ہے،چنانچہ وہ لکھتے ہیں :
(آں رفع یدین نزدِ امامِ اعظم سنّت نیست ٭ لیکن اکثر فقہاء و محدّثین اثباتِ آں میکنند)۔ [3]
’’یہ رفع یدین اگرچہ امامِ اعظم رحمہ اللہ کے نزدیک تو سنّت نہیں ہے،لیکن اکثر فقہاء و محدّثین ِ کرام کے نزدیک یہ سنّت و ثابت ہے۔‘‘
(11) … مولانا اشفاق رحمہ اللہ الرحمٰن صاحب فتح پوری کاندھلوی [ مدرس دہلی ] نے اگرچہ اپنے ممانعت ِ رفع یدین کے مسلک کی تائید کے لیٔے مستقل ایک کتاب
|